24 Apr, 2024 | 15 Shawwal, 1445 AH

Question #: 2506

October 14, 2019

Can wife kiss on husbands genitals?

Answer #: 2506

سوال

کیا بیوی شوہر کےآلۂ  تناسل کو بوسہ دے سکتی ہے؟

الجواب حامدا ومصلیا

اورل سیکس ( oral sex ) یعنی منہ کے ذریعہ جماع یا اعضاء تناسل کو منہ میں لینے کے بارہ میں حکم جاننے سے قبل چند شرعی اصولوں کو سامنے رکھیں:

1-  دین اسلام طہارت وپاکیزگی کا درس دیتا ہے اور نجاست و گندگی سے دور رہنے کو لازم قرار دیتا ہے۔  چنانچہ اللہ  سبحانہ وتعالى کاارشاد ہے:  "وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ" (المدثر: 5)      ترجمہ:   اور گندگی سے کنارہ کرلو۔

بہت سے مفسرین نے یہاں گندگی سے مراد بت لئے ہیں، لیکن الفاظ ہر قسم کی گندگی کے لیے عام ہیں۔

دوسری جگہ اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے:

{ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ } [البقرة: 222]

 بیشک اللہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی طرف کثرت سے رجوع کریں اور ان سے محبت کرتا ہے جو خوب پاک صاف رہیں۔

2-   دین اسلام اچھے  کاموں کا حکم دیتا اور گھٹیا اور رذیل کاموں سے منع کرتا ہے۔ چنانچہ  رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

«إِنَّ اللَّهَ كَرِيمٌ يُحِبُّ الْكَرَمَ، وَمَعَالِيَ الْأَخْلَاقِ، وَيُبْغِضُ سَفْسَافَهَا» مستدرك حاکم:

 یقینا اللہ تعالى باعزت ہے اور عزت ‘ اور اخلاق عالیہ کو پسند فرماتا ہے اور گھٹیا عادتوں کو ناپسند فرماتا ہے۔

 اسلام حلال اور پاکیزہ اشیاء کو کھانے کا حکم دیتا ہے اور خبیث کو حرام کرتا اور اس سے اجتناب کرنے کا حکم دیتا ہے۔

چنانچہ اللہ  سبحانہ وتعالى کاارشاد ہے:

{يَاأَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ} [البقرة: 168]

اے لوگو! زمین میں سے حلال   پاکیزہ چیزیں کھاؤ  اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، بے شک وہ تمہارا  کھلا دشمن ہے ۔

3-  دین اسلام میں جن چیزوں کو حرام کیا گیا ہے انکے قریب جانے سے بھی منع کر دیا گیا ہے اور ایسے امور جنکا حلال ہونا واضح نہیں ہے ان سے بھی دور رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔

چنانچہ اللہ  سبحانہ وتعالى کاارشاد ہے:

 {وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا } [الإسراء: 32]

اور زنا کے پاس بھی نہ پھٹکو، وہ یقینی طور پر بڑی بےحیائی اور بےراہ روی ہے ۔

4-   رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

 الحَلاَلُ بَيِّنٌ، وَالحَرَامُ بَيِّنٌ، وَبَيْنَهُمَا مُشَبَّهَاتٌ لاَ يَعْلَمُهَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ، فَمَنِ اتَّقَى المُشَبَّهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ، وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ: كَرَاعٍ يَرْعَى حَوْلَ الحِمَى، يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَهُ، أَلاَ وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى، أَلاَ إِنَّ حِمَى اللَّهِ فِي أَرْضِهِ مَحَارِمُهُ. صحیح البخاری، وصحیح مسلم.

حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے ‘ اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ امور ہیں‘ جنہیں بہت زیادہ لوگ نہیں جانتے ۔ تو جو ان مشتبہ امور سے بچ گیا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا۔ اور جو شبہات میں داخل ہوگیا اسکی مثال اس چرواہے کی سی ہے جو اپنی بکریوں کو ممنوعہ علاقہ کے قریب قریب چراتا ہے ‘ ہوسکتا ہے کہ اسکی بکریاں اس ممنوعہ علاقہ میں داخل ہو جائیں۔ خبردار! ہر حکومت کے کچھ ممنوعہ علاقے ہوتے ہیں اور اللہ تعالى کے ممنوعہ علاقے اسکے حرام کردہ امور ہیں۔

 دوسری  حدیث  میں ہے :

 وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ وَقَعَ فِي الْحَرَامِ

 اور جو مشتبہ کاموں میں پڑ گیا ‘ وہ حرام میں داخل ہوگیا۔ یعنی مشتبہ امور سے بچنا بھی فرض ہے اور ان کاموں میں پڑنا حرام ہے۔

5-  ضرر رساں اور نقصان دہ اشیاء کو شریعت نے حرام کیا ہے ۔

 رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

"لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ"۔ سنن ابن ماجه.

نہ نقصان اٹھانا ہے اور نہ ہی نقصان پہنچاناہے۔

6-   دین اسلام نے قضائے حاجت کے وقت دائیاں ہاتھ شرمگاہ کو لگانا منع کیا ہے۔ رسول اللہ ﷑ فرماتے ہیں:

«لَا يُمْسِكَنَّ أَحَدُكُمْ ذَكَرَهُ بِيَمِينِهِ وَهُوَ يَبُولُ، وَلَا يَتَمَسَّحْ مِنَ الْخَلَاءِ بِيَمِينِهِ، وَلَا يَتَنَفَّسْ فِي الْإِنَاءِ» صحیح مسلم.

تم میں سے کوئی بھی پیشاب کرتے ہوئے اپنا آلہ تناسل دائیں ہاتھ سے نہ پکڑے، اور نہ ہی دائیں ہاتھ سے استنجاء کرے, اور نہ ہی برتن میں سانس لے۔

چونکہ دائیاں ہاتھ کھانے پینے اور اچھے کاموں کے لیے استعمال ہوتا ہے اس لیے دائیں ہاتھ کو ایسے گھٹیاکاموں میں استعمال کرنے سے شریعت نے منع فرما دیا۔ چنانچہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

«كَانَتْ يَدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْيُمْنَى لِطُهُورِهِ وَطَعَامِهِ، وَكَانَتْ يَدُهُ الْيُسْرَى لِخَلَائِهِ، وَمَا كَانَ مِنْ أَذًى» سنن أبی داود.

 رسول اللہ ﷑ب کا دائیاں ہاتھ وضوء اور کھانا کھانے (جیسے امور) کے لیے ہوتا تھا اور آپ ﷑ کا بائیاں ہاتھ قضائے حاجت اور گندگی والے امور کے لیے۔

اب ذرا  غور فرمائیں کہ :

1.        جب دائیاں ہاتھ جس کے ذریعہ انسان کھانا اپنے منہ کی طرف بڑھاتا ہے اسے ہی گندگی والے کاموں، شرمگاہ کو چھونے وغیرہ سے روک دیا گیا ہے تو منہ، (جس سے انسان کھاتا پیتا ہے، اللہ کا نام لیتا ہے ، نمازمیں اسی سے ذکرو اذکار اور قرآن پاک کی تلاوت کی جاتی ہے، تو ) اس  کو شرمگاہ کے پر لگانا یا عضوتناسل کو منہ میں ڈالنا یا عورت کی شرمگاہ کو زبان سے چوسنا اور  چاٹنا منہ میں لیناکیسے  جائز ہو سکتا ہے؛کیونکہ مذی مرد کی ہو یا عورت کی ناپاک ہی ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اسے دھونے اور صاف کرنے کا حکم دیا ہے ۔اور بحالت شہوت مرد کے ذکر سے بھی اور عورت کی فرج سے بھی نکلنے والی رطوبت مذی کہلاتی ہے جو کہ نجس بھی ہے اور حرام بھی۔ ا گر کوئی مرد اپنی بیوی کی شرمگاہ چوستا یا چاٹتا یا اسے منہ لگاتا ہے تو اسکا منہ اس نجاست سے نہیں بچ سکتا۔ اسی طرح اگر کوئی عورت اپنے شوہر کے ذکر (آلہ تناسل) کو منہ میں داخل کرے تو وہ بھی غلبہ شہوت کی بناء پر نکلنے والی مرد کی مذی سے نہیں بچ سکتی بلکہ وہ مذی انکے منہ میں داخل ہوکر لعاب کے ساتھ شامل ہو جاتی ہے اور بسا اوقات لعاب نگلنے کی صورت میں معدہ تک بھی جاپہنچتی ہے۔ اور یہ نہایت ہی گھٹیا اور رذیل حرکت ہے۔جبکہ شریعت اسلامیہ نجاست سے دور رہنے کا حکم دیتی‘ نجس اور خبیث کو حرام قرار دے کر اسے کھانے پینے سے منع کرتی ‘ اور گھٹیا عادتوں سے بچنے کا حکم کرتی ہے۔ کوئی بھی مرد اس بات کا انکار نہیں کرسکتا کہ اس کے ذکر سے مذی نہیں نکلتی کیونکہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ہر مرد مذی خارج کرتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ کسی کی مذی زیادہ خارج ہوتی ہے اور کسی کی کم‘ بہر دو صورت اورل سیکس کی حرمت ہی ثابت ہوتی ہے‘ کیونکہ اگر مرد کی مذی بہت ہی کم بھی نکلتی ہو تب بھی جس وقت ذکر اس کی بیوی کے منہ میں داخل ہوگا کوئی یقینی بات نہیں کہ مذی نہ نکلے ‘ بلکہ غالب گمان یہی ہے کہ مذی نکلے گی۔ اورشبہات میں پڑنے کو بھی شریعت نے حرام قرار دیا ہے۔ اور بسا اوقات غلبہ شہوت کی بناء پر میاں صاحب اپنی بیوی کے منہ میں ہی منی نکال دیتے ہیں جو کہ اس سے بھی قبیح عمل ہے۔ شریعت گندگی کو دور پھینکنے کا حکم کرتی ہے جبکہ اورل سیکس کرنے والے گندگی کو منہ میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔  

جدید میڈیکل سائنس بھی اس بات کو ثابت کر چکی ہے کہ اورل سیکس کے نتیجہ میں منہ کا سرطان (کینسر) پیدا کرنے والا وائرس (HPV) کا سبب بنتا ہے۔ جبکہ شریعت اسلامیہ مضر صحت امور و اشیاء سے منع کرتی اور انہیں حرام قرار دیتی ہے۔ اور اسی طرح اورل سیکس ایسی برائی ہے کہ کسی مؤمن کا دل اس پر مطمئن نہیں ہوتا‘ اور یہ اسکے دل میں کھٹکتا رہتا ہے۔ جوکہ اس عمل کے گناہ ہونے کی ایک واضح دلیل ہے۔ ان تمام تر دلائل کی رو سے اورل سیکس کی حرمت ہی ثابت ہوتی ہے۔

2.  اپنی بیوی کی مقعد میں جماع کرنا حرام ہے، اس سے پچنا لازمی ہے۔ اور شوہر زبردستی کرتا ہے تو اس کو سمجھا بجھا کر انکار کردینا چاہیے۔  اور اگر کوئی اس کو حلال سمجھ کر کرتاہے تو اس کی وجہ سے انسان کافر ہوجاتاہے اور اس کا نکاح  بھی ختم ہوجائےگا۔

فی الفتاوى الهندية (5/ 372)

 إذا أدخل الرجل ذكره في فم امرأته قد قيل يكره وقد قيل بخلافه كذا في الذخيرة.

الجوهرة النيرة (1/ 118)

وأما الوطء في الدبر فحرام في حالة الحيض والطهر لقوله تعالى { فأتوهن من حيث أمركم الله } ، أي من حيث أمركم الله بتجنبه في الحيض وهو الفرج ، { وقال عليه السلام إتيان النساء في أعجازهن حرام } وقال { ملعون من أتى امرأة في دبرها } ، وأما قوله تعالى { فأتوا حرثكم أنى شئتم } أي كيف شئتم ومتى شئتم مقبلات ومدبرات ومستقلبات وباركات بعد أن يكون في الفرج ولأن الله تعالى سمى الزوجة حرثا فإنها للولد كالأرض للزرع ، وهذا دليل على تحريم الوطء في الدبر ؛ لأنه موضع الفرث لا موضع الحرث .

والله اعلم بالصواب

احقرمحمد ابوبکر صدیق  غَفَرَاللّٰہُ لَہٗ

دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ

‏04‏ ربیع الأوّل‏، 1441ھ

‏02‏ نومبر‏، 2019ء