Question #: 2087
September 28, 2017
Answer #: 2087
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ہذا کے بارے میں میری والدہ بہت بیمار ہے خود بیت الخلا بھی نہیں جا سکتیں مجھے پکڑ کر لے جانا پڑتاہے اور استنجاء کے وقت لوٹے سے پانی بھی میں ہی ڈالتا ہوں ،نہلاتا بھی ہوں ، مالش بھی کرتا ہوں، تو ان سب امور میں جسم کو مختلف جگہوں سے چھونا بھی پڑتا ہے اور ستر پر نگاہ بھی پڑ جاتی ہے، گھر میں سوائےمیری بیوی کے کوئی اور عورت نہیں، مگر دونوں کی آپس میں اکثر لڑائی رہتی ہے، اس لیے وہ ان کی خدمت نہیں کرتی، مجھے ہی کرنی پڑتی ہے۔ اب بتائیں میرے لیےکیا حکم ہے۔
الجواب حامداومصلیا
بہو کے کے ذمہ واجب نہیں ہے کہ وہ شوہر کے والدین کی خدمت کرے، البتہ اس کی سعادت ،خوش نصیبی اور باعث اجر و ثواب ہے، اور اگر بہو اپنی ساس کی خدمت کرے گی تو ان شاء اللہ بڑا ثواب ہے۔ اور ضرورت کے باوجودان کی خدمت نہ کرنا بہت بڑی محرومی کی بات ہے۔
صورت مسئولہ میں آپ اپنی والدہ کو نہلانے، کپڑے تبدیل کرنے اور باتھ روم کی ضرورت کے لیے کوئی خادمہ رکھ لیں، اور باقی خدمت خود کرلیا کریں۔
گھریلو جھگڑے ختم کرنے کے لیے اپنے گھر میں دینی تعلیم کا آغاز کریں۔ جس کا طریقہ یہ ہے کہ ان کو بزرگوں کی کتابیں مطالعہ کے لیے دیں، اور ایک وقت ایسا مقرر کریں کہ اس میں سب گھر والے جمع ہوں، اوراس میں ان کو کسی بزرگ کی کتاب کا کچھ حصہ پڑھ کر سنایا جائے۔ گھریلو جھگڑے ختم کرنے کے لیے حضرت جی دامت برکاتہم کی کتاب ‘‘ مثالی عورت’’ بہت مفید ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
احقرمحمد ابوبکر صدیق غفراللہ لہ
دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ
۲۷؍محرم الحرام؍۱۴۳۸ھ
۱۸؍اکتوبر؍۲۰۱۷ء