26 Apr, 2024 | 17 Shawwal, 1445 AH

Question #: 2159

November 24, 2017

السلام علیکم و رحمۃ الله و برکاتہ! حضرت کسی کی انتقال کے دوسرے دن، میت کے گھر والے رشتہ داروں اور پڑوسیوں اور غریبوں کو کھانا بناکر بھیجتے ہیں! کہتے ہیں کہ یہ بدعت ہے. کیا وہاں سے آیا ہوا کھانا کھانا جائز ہے؟ اس کھانے کو کیا کریں؟

Answer #: 2159

السلام علیکم و رحمۃ الله و برکاتہ! حضرت کسی کی انتقال کے دوسرے دن، میت کے گھر والے رشتہ داروں اور پڑوسیوں اور غریبوں کو کھانا بناکر بھیجتے ہیں! کہتے ہیں کہ یہ بدعت ہے. کیا وہاں سے آیا ہوا کھانا کھانا جائز ہے؟ اس کھانے کو کیا کریں؟

الجواب حامدا ومصلیا

یہ کھانا حرام تو نہیں ہے، البتہ چونکہ اس  کے لینے اور کھانے میں بدعت کو رواج دینے میں مدد ملتی ہے، اس لیے اس طرح کے کھانے سےبچا جائے۔

حاشية ابن عابدين - (2 / 240)

 ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور وهي بدعة مستقبحة وروى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة اه وفي البزازية ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلى القبر في المواسم واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص والحاصل أن اتخاذ الطعام عند قراءة القرآن لأجل الأكل يكره.

 واللہ اعلم بالصواب

      احقرمحمد ابوبکر صدیق  غفراللہ لہ

  دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ

۷؍ربیع الاول؍۱۴۳۹ھ

                         ۲۶؍نومبر؍۲۰۱۷ء