23 Apr, 2024 | 14 Shawwal, 1445 AH

Question #: 2883

December 11, 2021

Is it already decided how many children one will have? If yes then what is the purpose of contraception?

Answer #: 2883

کیا پہلے ہی سے یہ طے ہے کہ کسی کے کتنے بچے ہوں گے؟ اگر ہاں تو  مانع حمل کا مقصد کیا ہے؟

الجواب حامدا ومصلیا

کثرتِ  اولاد، شريعت كی  ترغیبات میں سے ہونے کے ساتھ ساتھ نکاح کے من جملہ مقاصد میں سے ایک اہم مقصد بھی ہے،  اس لیے بلاضرورت کوئی بھی ایسا ذریعہ استعمال کرنا جو مانعِ حمل ہو  پسندیدہ نہیں ہے، تاہم اگر بچے ابھی چھوٹے ہوں یا عورت کم زور ہو اور اس کی صحت حمل کی متحمل نہ ہو تو عارضی طور پر مانعِ حمل تدبیر کے اختیار کرنے کی گنجائش ہے۔ شریعت کی طرف سے مانع حمل اختیار کرنے کا حکم نہیں ہے۔

باقی تقدیر کی دو قسمیں ہیں :تقدیر مبرم،  تقدیر معلق

پہلی قسم "تقدیر مبرم"  ہے۔ یہ آخری فیصلہ ہوتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے لوحِ محفوظ پر لکھ دیا جاتا ہے، اور اس میں تبدیلی نا ممکن ہے۔

دوسری  قسم "قضائے معلق"  کی ہے ، اﷲتعالیٰ کی طرف سے  یہ وعدہ ہے کہ اگر کوئی بندہ چاہے تو ہم اس کےنیک عمل  اور دعا کے ساتھ ہی اس کی تقدیر بھی بدل دیں گے۔ سورۃ الرعد میں ارشاد فرمایا :

يَمْحُو اللّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ [الرعد : 13، 39]

ترجمہ: ’’اللہ جس (لکھے ہوئے) کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جسے چاہتا ہے) ثبت فرما دیتا ہے اور اسی کے پاس اصل کتاب (لوح محفوظ) ہے۔‘‘

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں شام میں طاعون کی وبا پھیلی اور اس زمانے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی شام کے سفر پر تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ وبا زدہ علاقوں کی طرف نہیں بڑھے، بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے مشورہ کرنے اور اس بارے میں احادیثِ مبارکہ کا مذاکرہ کرنے کے بعد جلدی واپسی کا فیصلہ فرمایا، تو حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

"أتَفِرُّ مِنْ قَدْرِ اﷲِ"

ترجمہ: ’’کیا آپ تقدیر سے بھاگتے ہیں۔‘‘

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا جواب دیا:

"أفِرُّ مِنْ قَضَاء اﷲ اِلٰی قَدْرِ اﷲِ". (ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 3 : 283)

ترجمہ: ’’میں اﷲ کی قضا سے اس کی قدر کی طرف بھاگتا ہوں۔‘‘ بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں : "نفر من قدر الله الی قدر الله".

اسی کی نسبت احادیث میں ارشاد ہوتا ہے :

" لَا يُرَدُّ الْقَضَاءَ إِلاَّ الدُّعَاءَ". (ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب القدر، باب ماجاء لا يرد القدر إلا الدعاء، رقم : 2139)

’’صرف دعا ہی قضا کو ٹالتی ہے۔

بسا اوقات اللہ تعالی نے یہ لکھ دیا ہوتا ہے کہ یہ اسباب اختیار کرے گا، مثلا بیماری  میں دوائی  استعمال کرے  گا تو جلدی شفا مل جائے گی اور  اگر دوائی استعمال نہیں کرے گا تو شفا دیر سے ملے گی، اس لیے یہ اسباب اختیار کیے جاتے ہیں۔

والله اعلم بالصواب

احقرمحمد ابوبکر صدیق غَفَرَاللہُ لَہٗ

دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ