Question #: 2865
October 01, 2021
Answer #: 2865
الجواب حامدا ومصلیا
جواب سے پہلے بطور تمہید کچھ باتیں سمجھ لینا ضروری ہے:
- زندگی میں مرض الوفات سے پہلےپہلے اپنی مملوکہ جائیداد میں ہر طرح کا جائز تصرف کرسکتا ہے،جس میں ہبہ بھی داخل ہے۔
- زندگی میں مرض الوفات سے پہلے کوئی شخص اگر اپنا منقولہ و غیر منقولہ مال وجائیداد اپنی اولادیا رشتہ داروں میں تقسیم کر دے تو اس کو عطیہ اورہبہ(گفٹ) کہا جاتا ہے۔
- اور ہبہ کے مکمل ہونے کے لئے ضروری ہے کہ جس کو زندگی میں جو کچھ دیا جائےباقاعدہ اس پر اس کا عملی قبضہ کرایا جائے،تب وہ اس کا مالک بنے گا، عملی قبضہ کرائےبغیر صرف کاغذات میں نام کروا دینے سے یا قابلِ تقسیم اشیاء کو بغیر تقسیم کیے مشترکہ طور پر دینے سے وہ اس کے مالک نہیں بنے گا ،بلکہ وہ چیز بدستور ہبہ کرنے والے کی ملکیت میں رہے گی ۔
- اپنا رہائشی مکان کو ہبہ کرنے کی صورت میں یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے مکان سے اپنا سامان نکال کر اس کو خالی کرکے دوسرے ( موہوب لہ ) کے حوالے کرے۔ اگر اس کے مکان میں اس کا سامان بھی موجود ہو اور وہ مکان ہبہ کر کے اس کے حوالے کرے تو یہ ہبہ مکمل نہیں ہوگا اور یہ مکان بدستور ہبہ کرنے والے کی ملکیت میں رہے گا ۔
آپ کے سوالوں کا جواب یہ ہے کہ
1- آپ کے دادا کا آپ کی والدہ کو اس کا رہائشی کمرہ ہبہ کرنا درست ہے، اور چونکہ اس کمرے پر آپ کی والدہ کا پہلے سے قبضہ تھا ، اس لیے ہبہ مکمل ہوگیا اور یہ کمرہ آپ کی والدہ کی ملکیت ہوگیا، یہ آپ کے دادا مرحوم وراثت تقسیم نہیں ہوگا۔
2- آپ کے دادا نے والدہ سے براہ راست ایک سے زائد مرتبہ پورے گھر کا ہبہ کیا، اس کے حکم کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ اگر آپ کے دادانے اپنی صحت کی زندگی میں اپنا اور دیگر رہنے والے حضرات کا سامان مکان سے نکال کر ، آپ کی والدہ کومالکانہ قبضہ دیا تھا تو وہ آپ کی والدہ کی ملکیت ہوجائے گا، اور اگر انہوں نے صرف زبانی طور پر یہ کہا تھا اور ساری زندگی قبضہ نہیں دیا تھا تو وہ مکان آپ کے دادا مرحوم کی ملکیت ہوگا اور اس کے شرعی ورثہ کے درمیان تقسیم ہوگا۔
3- سب ورثہ کا بتلانا ضروری نہیں ہے ، البتہ اتنے قابل اعتبار ورثہ کو یا اور لوگوں کو بتلانا ضروری ہے کہ اگر ورثہ میں سے کوئی انکار کرے تو ان کی گواہی کے ذریعہ سے اس ہبہ کو عدالت وغیرہ میں ثابت کیا جاسکے ۔
فی سنن ابن ماجه: باب الحيف في الوصية
عن أنس ابن مالك قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من فر من ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة .
وفی الدر المختار - (5 / 690) ط سعيد
( وتتم ) الهبة ( بالقبض ) الكامل ( ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به) والأصل أن الموهوب إن مشغولا بملك الواهب منع تمامها وإن شاغلا لا
وفی الفتاوى الهندية - (4 / 392) ط رشيدية
وإذا وهب لابنه وكتب به على شريكه فما لم يقبض لا يملكه ولو دفع إلى ابنه مالا فتصرف فيه الابن يكون للأب إلا إذا دلت دلالة على التمليك كذا في الملتقط.
الفقه الإسلامي وأدلته (5/ 642)
إذا كان الموهوب في يد الموهوب له وديعة أو عارية، فوهب منه، جازت الهبة، ولا يحتاج إلى تجديد القبض بعد العقد استحساناً، والقياس: أن لا يصير قابضاً ما لم يجدد القبض، وهو أن يخلي بين الموهوب له وبين الموهوب بعد العقد؛ لأن يد الوديع هي يد صورية، وهي في الحقيقة والمعنى يد المودع، فكان المال في يده فيحتاج إلى تجديد القبض. ووجه الاستحسان: أن قبض الهبة وقبض الوديعة أو العارية متماثلان في القوة؛ لأن كل واحد منهما قبض أمانة غير مضمون، إذ الهبة عقد تبرع، وكذا الوديعة والعارية، فتماثل القبضان، فيقوم أحدهما مقام الآخر.....
الفقه الإسلامي وأدلته (5/ 634)
أن يكون الموهوب متميزاً عن غيره، ليس متصلاً به، ولا مشغولاً بغير الموهوب: لأن معنى القبض، وهو التمكن من التصرف في المقبوض لا يتحقق مع شغل الموهوب بغيره وهذا شرط صحة للهبة.
وبناء عليه لو وهب شخص أرضاً فيها زرع للواهب دون الزرع، أو زرعاً دون الأرض، أو نخلاً فيها ثمرة للواهب معلقة بها دون الثمرة، أو ثمرة النخل دون النخل: لا يجوز، وإن قبض الموهوب، وتكون الهبة فاسدة، فلو جز الثمر، وحصد الزرع، ثم سلمه فارغاً، جاز؛ لأن المانع من نفاذ حكم العقد وهو ثبوت الملك، قد زال.
وكذا لو وهب داراً فيها متاع للواهب، أو ظرفاً فيه متاع للواهب دون المتاع، أو وهب دابة عليها حمل للواهب دون الحمل، وقبض الموهوب، فإنه لاتجوز الهبة، ولا يزول الملك عن الواهب إلى الموهوب له؛ لأن الموهوب مشغول بغيره، فيكون بمنزلة هبة المشاع، وتكون الهبة حينئذ فاسدة، فلو ميز الموهوب عن غيره، وسلمه وحده، جازت الهبة.والخلاصة: إن هبة المشغول لا تصح بخلاف الشاغل، وهبة المتصل بغير الهبة اتصال خلْقة مع إمكان الفصل لا تجوز.
والله اعلم بالصواب
احقرمحمد ابوبکر صدیق غَفَرَاللہُ لَہٗ
دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ