27 Apr, 2024 | 18 Shawwal, 1445 AH

Question #: 2369

February 04, 2019

پینٹ اور شرٹ کی خرید و فروخت کا کاروبار کر سکتے ہیں

Answer #: 2369

الجواب حامدا ومصلیا

پینٹ اصل میں غیر قوموں کی ایجاد کردہ لباس ہے، ابتداء میں ان کا مخصوص شعار ہونے کی وجہ سے حکم شدید تھا اب اس میں عام ابتلاء پایا جاتا ہے، بہت سے مسلمان بھی پہنتے ہیں، اس لیے کراہت کا حکم اب اس درجہ شدید نہیں، لیکن اس کے باوجود چونکہ یہ مسنون لباس نہیں اور نہ ہی صلحاء کا لباس ہے، اس لیے مسلمان کے لیے پینٹ شرٹ پہننا کوئی پسندیدہ  اور اچھا نہیں ہے، (  بشرطیکہ وہ اتنی سخت نہ ہو  کہ  مستور اعضا کی خدو خال کی بناوٹ ظاہر ہو)  اس لیے اس  کا کاروبار  جائز ہے ، لیکن مناسب اور پسندیدہ  نہیں ہے ،تاہم اس کراہت کے باوجود اس  کی آمدنی حلال ہے ، کیونکہ یہ آمدنی کپڑوں میں لگائے جانے والے مالیت کے عوض ہے اور وہ حلال ہے ۔

وفی الاشباہ والنظائر لابن النجیم: (1  / 97)

الامور بمقاصدھا .

وفی الفقه الإسلامي وأدلته (4/ 537)

ولم يشترط الحنفية هذا الشرط، فأجازوا بيع النجاسات كشعر الخنزير وجلد الميتة للانتفاع بها إلا ما ورد النهي عن بيعه منها كالخمر والخنزير والميتة والدم ، كما أجازوا بيع الحيوانات المتوحشة، والمتنجس الذي يمكن الانتفاع به في غير الأكل. والضابط عندهم: أن كل ما فيه منفعة تحل شرعاً، فإن بيعه يجوز، لأن الأعيان خلقت لمنفعة الإنسان بدليل قوله تعالى: {خلق لكم ما في الأرض جميعاً} [البقرة:29/2]

وفی الدر المختار (6/ 360)

فإذا ثبت كراهة لبسها للتختم ثبت كراهة بيعها وصيغها لما فيه من الإعانة على ما لا يجوز وكل ما أدى إلى ما لا يجوز لا يجوز .

وفی حاشية ابن عابدين (4/ 268)

 وكذا لا يكره بيع الجارية المغنية والكبش النطوح والديك المقاتل والحمامة الطيارة؛ لأنه ليس عينها منكرا وإنما المنكر في استعمالها المحظور. اهـ. قلت: لكن هذه الأشياء تقام المعصية بعينها لكن ليست هي المقصود الأصلي منها، فإن عين الجارية للخدمة مثلا والغناء عارض فلم تكن عين النكر.

والله اعلم بالصواب

احقرمحمد ابوبکر صدیق  غفراللہ لہ

دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ

۰۶ ، رجب المرجب ، ۱۴۴۰ھ

‏13‏ ، مارچ‏ ، 2019ء