Question #: 2688
November 07, 2020
Answer #: 2688
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته! مفتی صاحب اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کے نان نفقہ کا پورا حق ادا کرتا ہے مگر اس کے ہاتھ میں کوئی پیسے نہیں رہتے ہیں اور ناں ہی اس کے پاس کوئی زیور ہے تو کیا ایسی صورت میں وہ زکاۃ کی حق دار کہلائے گی؟ براہ کرم راہنمائی فرمائیں شکریہ
الجواب حامدا ومصلیا
جس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی ،یا اس کی قیمت کے بقدرسونا، یا نقدی،یا سامانِ تجارت یا ضرورت سے زائد سامان یا جائیداد نہ ہو تو اس کو زکوۃ دینا جائز ہے، لہذا صورت مسؤلہ میں جب اس کے پاس نقد رقم ،زیور وغیرہ نہیں ہے تو اس کو زکوۃ دینا جائز ہے۔
الدر المختار - (2 / 339)
هو فقير وهو من له أدنى شيء ) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير تام مستغرق في الحاجة ( ومسكين ..... ويشترط أن يكون الصرف ( تمليكا ) لا إباحة كما مر ... ( لا ) يصرف ( إلى بناء ) نحو ( مسجد و ) لا إلى ( كفن ميت وقضاء دينه ) و ) لا إلى (من بينهما ولاد ) ولو مملوكا لفقير ( أو ) بينهما ( زوجية ) ( و ) لا إلى ( غني ) يملك قدر نصاب فارغ عن حاجته الأصلية من أي مال كان ( و ) لا إلى ( بني هاشم ) ( ولا ) تدفع ( إلى ذمي ) لحديث معاذ.
والله اعلم بالصواب
احقرمحمد ابوبکر صدیق غَفَرَاللّٰہُ لَہٗ
دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ
22 ربیع الثانی، 1442ھ
08 دسمبر، 2020ء