29 Mar, 2024 | 19 Ramadan, 1445 AH

Question #: 2420

April 14, 2019

السلام علیکم ۔ میں ہر سال یکم رمضان کو زکوة کا حساب کرتا ہوں۔ اس سال میرے مال کی تفصیل یہ ہے۔ 1۔ بھائی کے ساتھ پلاٹ میں حصہ ایک لاکھ اڑسٹھ ہزار روپے پاکستانی 2۔ والد کے ساتھ پلاٹ میں حصہ پانچ لاکھ روپے پاکستانی 3۔ والد کو دیا گیا قرض تین لاکھ تیس ہزار روپے پاکستانی 4۔ ہم زلف کو دیا گیا قرض ایک لاکھ پچیس ہزار روپے پاکستانی 5۔ دوست کو دیا گیا قرض ستر ہزار روپے پاکستانی 6۔ ایک ذاتی پلاٹ جس کو تجارت کی غرض سے خریدا اسی کی مالیت بیس لاکھ روپے پاکستانی 7۔ بھائی کو دئے ہوئے پیسے جو میری طرف سے تو قرضہ سمجھ کے نہیں دیا گیا لیکن بھائی کے ذہن میں یہ ہے کہ جب ان کو موقع ملے تو واپس کرے گا تین لاکھ پچاس ہزار روپے پاکستانی 8۔ میرے اوپر میرے سسر کا قرضہ ایک لاکھ روپے پاکستانی اب مجھے یکم رمضان کو کتنی زکوة دینی ہے۔ جزاک اللہ خیرا

Answer #: 2420

السلام علیکم : میں ہر سال یکم رمضان کو زکوة کا حساب کرتا ہوں۔ اس سال میرے مال کی تفصیل یہ ہے۔

 1۔ بھائی کے ساتھ پلاٹ میں حصہ ایک لاکھ اڑسٹھ ہزار روپے پاکستانی

 2۔ والد کے ساتھ پلاٹ میں حصہ پانچ لاکھ روپے پاکستانی

 3۔ والد کو دیا گیا قرض تین لاکھ تیس ہزار روپے پاکستانی

 4۔ ہم زلف کو دیا گیا قرض ایک لاکھ پچیس ہزار روپے پاکستانی

 5۔ دوست کو دیا گیا قرض ستر ہزار روپے پاکستانی

 6۔ ایک ذاتی پلاٹ جس کو تجارت کی غرض سے خریدا اس کی مالیت بیس لاکھ روپے پاکستانی

 7۔ بھائی کو دئے ہوئے پیسے جو میری طرف سے تو قرضہ سمجھ کے نہیں دیا گیا لیکن بھائی کے ذہن میں یہ ہے کہ جب ان کو موقع ملے تو واپس کرے گا تین لاکھ پچاس ہزار روپے پاکستانی

 8۔ میرے اوپر میرے سسر کا قرضہ ایک لاکھ روپے پاکستانی

اب مجھے یکم رمضان کو کتنی زکوة دینی ہے۔ جزاک اللہ خیرا

الجواب حامدا ومصلیا

1، 2-  اگر  بھائی اور والد صاحب والے پلاٹ بیچنے کی نیت سے خریدےتھے،  توان کی موجودہ قیمت میں سے آپ کا جو حصہ بنتا ہے، اس پر زکوٰۃ   واجب  ہوگی۔ اگر بیچنے کی نیت سے نہیں خریدے تھے  تو زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔

3، 4، 5 -  آپ نے جو ان حضرات کو قرض دیا ہوا ہے، اس پر زکوۃ واجب ہوگی۔

6- اس پلاٹ کی موجودہ قیمت  ( مالیت) پر  زکوۃ واجب ہوگی۔

7-  اپنے بھائی کے ساتھ  اس معاملہ کو واضح کرلیں کہ اگر واقعتا قرض نہیں  ہے تو اس  پر زکوۃ واجب  نہیں ہوگی۔

8 - آپ  کے ذمہ جو قرض ہے ، اس کو منہا کریں گے  اور آپ پر  اس کی زکوۃ واجب نہیں ہوگی ۔

زکوٰة کا حساب کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ سال گذر جانے پر  بیچنے کی نیت سے خریدے ہوئے پلاٹوں کی موجودہ مالیت،  قرض دی ہوئی رقم اور دیگر قابل زکوۃ مال ( مثلاً : سونا، چاندی، نقد رقم ، سامان تجارت) جو آپ کے پاس ہو، ان سب کی قیمت لگا کر سب  کو جمع کرلیں، آپ کے ذمہ کسی دوسرے کا قرض ہو تو مذکورہ میزان میں سے اُسے منہا (کم) کردیں، جیساکہ سوال نمبر 7 میں لکھاہے، پھر جو رقم باقی بچے اس کا ڈھائی فیصد حساب کرکے متعین کرلیں یہ رقم زکوٰة کی ہے ۔ اب آپ اسے اکٹھا بھی ادا کرسکتے ہیں، تھوڑی تھوڑی کرکے حسب سہولت ادا کرتے رہیں ،یہ بھی جائز ہے۔

زکوٰة کا حساب قمری (چاند) کے اعتبار سے سال پورا ہوجانے پر کیا جائے، مثلاً: سب سے پہلے سال جس ماہ میں(محرم یا رمضان) آپ صاحب نصاب ہوئے تھے ہر سال اسی ماہ میں زکوٰة کا حساب کیا کریں۔ حساب کے بعد زکوٰۃ کیواجب مقدار اپنے پاس   نوٹ کرلیں۔ ادائیگی حسب سہولت کرتے رہیں  تواس میں  بھی کوئی حرج نہیں۔

والله اعلم بالصواب

احقرمحمد ابوبکر صدیق  غفراللہ لہ

دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ

14 ، شعبان ، 1440ھ

20 ، اپریل ، 2019ء