26 Apr, 2024 | 17 Shawwal, 1445 AH

Question #: 3034

October 24, 2022

Bachon k ye name Jasa allah k name hn abdurrafay ya abdu wasay ya Abdul nafay es Tara k name Rakh saktay hn or agar Rakh saktay hn to UN names ko Khali rafay wasay kah sakta hn ya Abdul Sath lagana zaroori h

Answer #: 3034

الجواب حامداً ومصلیاً

"اللہ تعالی کے ناموں  " میں سے بعض ایسے نام  ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں، ان  کا استعمال اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں ہے، جب کہ اللہ تعالی کے  بعض (صفاتی ) نام  ایسے ہیں جو قرآن وحدیث میں غیراللہ کے لیے بھی استعمال ہوئے ،ایسے ناموں کے شروع میں"عبد"لگانا ضروری  نہیں ہے،  ان ناموں کے آغاز میں "محمد" لگانا بھی درست ہے۔ مذکورہ نام "رافع"اور "واسع "بھی اس میں شامل ہیں؛ لہذا  "محمد  رافع " اور "محمد واسع " نام  رکھنا بهی درست ہے، اور رافع اور واسع کہنا بھی درست ہے۔

حضرت  مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ معارف القرآن میں  لکھتے ہیں:

" اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام دو طرح کے ہیں: پہلی قسم کےوہ نام ہیں جوقرآن و حدیث میں غیراللہ کے لیے بھی استعمال ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے لیے بھی۔ غنی، حق، حمید، طاہر، جلیل، رحیم، رشید، علی، کریم، عزیز وغیرہ کا استعمال قرآن و حدیث میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ بندوں کے لیے بھی ہواہے؛ لہٰذا ایسے صفاتی نام بندوں کے لیے بھی رکھے جاسکتے ہیں، اور ان ناموں کے ساتھ عبد لگانا ضروری نہیں۔ دوسری قسم:وہ نام ہیں جوقرآن و حدیث میں صرف اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال ہوئے ہیں اور غیراللہ کے لیے ان کا استعمال ثابت نہیں ہے۔ "رحمن، سبحان، رزّاق، خالق، غفار " قرآن وسنت میں اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کے لیے نہیں آتے؛ لہٰذا ان ناموں کے ساتھ کسی کا نام رکھنا ہو تو ان کے ساتھ "عبد" کا لفظ ملانا ضروری ہے، جیسے: عبدالرحمن، عبدالسبحان، عبدالرزاق، عبدالخالق، عبدالغفار وغیرہ۔ بعض لوگ لاعلمی یا لاپروائی کی بنا پر عبدالرحمن کو رحمٰن، عبدالرزاق کو رزّاق، عبدالخالق کو خالق، عبدالغفار کو غفار کہہ کر پکارتے ہیں، ایسا کرنا ناجائز ہے۔" مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’ایسا کرنا گناہِ کبیرہ ہے۔ جتنی مرتبہ یہ لفظ پکارا جاتا ہے اتنی ہی مرتبہ گناہِ کبیرہ کا ارتکاب ہوتا ہے اور سننے والا بھی گناہ سے خالی نہیں ہوتا‘‘۔ (تفسیر معارف القرآن، تفسیر آیت ۱۸۰،ص ۱۳۲، ج ۴)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 417):

" وجاز التسمية بعلي ورشيد من الأسماء المشتركة، ويراد في حقنا غير ما يراد في حق الله تعالى. (قوله: وجاز التسمية بعلي إلخ) الذي في التتارخانية عن السراجية: التسمية باسم يوجد في كتاب الله تعالى كالعلي والكبير والرشيد والبديع جائزة إلخ، ومثله في المنح عنها، وظاهره الجواز ولو معرفاً بأل".

والله اعلم بالصواب

احقرمحمد ابوبکر صدیق غَفَرَاللہُ لَہٗ

دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ