24 Apr, 2024 | 15 Shawwal, 1445 AH

Question #: 2414

April 09, 2019

السلام علیکم حضرت ایک بات آپ سی پوچھنی تھی وہ یہ ہے کہ میرا ایک دوست مجھے روزانہ واٹس ایپ پہ قرآن پاک کی تفسیر ابن کثیر بھیجتا ہے کیا اس کو بغیر وضو پڑھ سکتے ہیں یا وضو کا ہونا ضروری ہے پلیز رہنمائی فرما دیں اور وہ جو میسج کرتا ہے وہ مندرجہ ذیل ہے جزاکم اللہ خیرا 🌴•┄┅┅❂❀﷽❀❂┅┅┈•🌴 ﺍﻟﺴَّــــﻼَﻡُ ﻋَﻠَﻴــْﻜُﻢ ﻭَﺭَﺣْﻤَﺔُﺍﻟﻠﻪِﻭَﺑَﺮَﻛـَـﺎﺗُﻪ ︽︽︽︽︽︽︽︽︽︽︽ 📖 القـــران الکـــریم 🕯 ︾︾︾︾︾︾︾︾︾︾︾ *🌷ســـورة آل عمـــران آیت 121*🥀🥀 🌼:وَ اِذۡ غَدَوۡتَ مِنۡ اَہۡلِکَ تُبَوِّئُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ مَقَاعِدَ لِلۡقِتَالِ ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۱۲۱﴾ۙ 📜:اے نبی! اس وقت کو بھی یاد کرو جب صبح ہی صبح آپ اپنے گھر سے نکل کر مسلمانوں کو میدان جنگ میں لڑائی کے مورچوں پر باقاعدہ بٹھا رہے تھے اللہ تعالٰی سننے اور جاننے والا ہے ۔ *🌷ســـورة آل عمـــران آیت 122*🥀🥀 🌼:اِذۡ ہَمَّتۡ طَّآئِفَتٰنِ مِنۡکُمۡ اَنۡ تَفۡشَلَا ۙ وَ اللّٰہُ وَلِیُّہُمَا ؕ وَ عَلَی اللّٰہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۱۲۲﴾ 📜:جب تمہاری دو جماعتیں پست ہمتی کا ارادہ کر چکی تھیں اللہ تعالٰی ان کا ولی اور مددگار ہے اور اسی کی پاک ذات پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہیے ۔ *🌷تفســــــــــــــیرابنِ کثـــــــــــــــیر*🥀🥀 ✍:غزوہ احد کی افتاد یہ احد کے واقعہ کا ذکر ہے بعض مفسرین نے اسے جن خندق کا قصہ بھی کہا ہے لیکن ٹھیک یہ ہے کہ واقعہ جنگ احد کا ہے جو سن 3 ہجری 11 شوال بروز ہفتہ پیش آیا تھا ، جنگ بدر میں مشرکین کو کامل شکست ہوئی تھی انکے سردار موت کے گھاٹ اترے تھے ، اب اس کا بدلہ لینے کیلئے مشرکین نے بڑی بھاری تیاری کی تھی وہ تجارتی مال جو بدر والی لڑائی کے موقعہ پر دوسرے راستے سے بچ کر آگیا تھا وہ سب اس لڑائی کیلئے روک رکھا تھا اور چاروں طرف سے لوگوں کو جمع کرکے تین ہزار کا ایک لشکر جرار تیار کیا اور پورے سازو سامان کے ساتھ مدینہ پر چڑھائی کی ، ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کی نماز کے بعد مالک بن عمرو کے جنازے کی نماز پڑھائی جو قبیلہ بنی النجار میں سے تھے پھر لوگوں سے مشورہ کیا کہ ان کی مدافعت کی کیا صورت تمہارے نزدیک بہتر ہے؟ تو عبداللہ بن ابی نے کہا کہ ہمیں مدینہ سے باہر نہ نکلنا چاہئے اگر وہ آئے اور ٹھہرے تو گویا ہمارے جیل خانہ میں آگئے رکے اور کھڑے رہیں اور اگر مدینہ میں گھسے تو ایک طرف سے ہمارے بہادروں کی تلواریں ہوں گی دوسری جانب تیر اندازوں کے بےپناہ تیر ہوں گے پھر اوپر سے عورتوں اور بچوں کی سنگ باری ہو گی اور اگر یونہی لوٹ گئے تو بربادی اور خسارے کے ساتھ لوٹیں گے لیکن اس کے برخلاف بعض صحابہ جو جنگ بدر میں شریک نہ ہو سکے تھے ان کی رائے تھی کہ مدینہ کے باہر میدان میں جا کر خوب دل کھول کر ان کا مقابلہ کرنا چاہئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لے گئے اور ہتھیار لگا کر باہر آئے ان صحابہ کو اب خیال ہوا کہ کہیں ہم نے اللہ کے نبی کی خلاف منشاء تو میدان کی لڑائی پر زور نہیں دیا اس لئے یہ کہنے لگے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگر یہیں ٹھہر کر لڑنے کا ارادہ ہو تو یونہی کیجئے ہماری جانب سے کوئی اصرار نہیں ، آپ نے فرمایا اللہ کے نبی کو لائق نہیں کہ وہ ہتھیار پہن کر اتارے اب تو میں نہ لوٹوں گا جب تک کہ وہ نہ جائے جو اللہ عزوجل کو منظور ہو چنانجہ ایک ہزار کا لشکر لے کر آپ مدینہ شریف سے نکل کھڑے ہوئے ، شوط پر پہنچ کر اس منافق عبداللہ بن ابی نے دغا بازی کی اور اپنی تین سو کی جماعت کو لے کر واپس مڑ گیا یہ لوگ کہنے لگے ہم جانتے ہیں کہ لڑائی تو ہونے کی نہیں خواہ مخواہ زحمت کیوں اٹھائیں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی اور صرف سات سو صحابہ کرام کو لے کر میدان میں اترے اور حکم دیا کہ جب تک میں نہ کہوں لڑائی شروع نہ کرنا پچاس تیر انداز صحابیوں کو الگ کر کے ان کا امیر حضرت عبداللہ بن جبیر کو بنایا اور ان سے فرما دیا کہ پہاڑی پر چڑھ جاؤ اور اس بات کا خیال رکھو کہ دشمن پیچھے سے حملہ آور نہ ہو دیکھو ہم غالب آ جائیں یا ( اللہ نہ کرے ) مغلوب ہو جائیں تم ہرگز اپنی جگہ سے نہ ہٹنا ، یہ انتظامات کر کے خود آپ بھی تیار ہو گئے دوہری زرہ پہنی حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جھنڈا دیا آج چند لڑکے بھی لشکر محمدی میں نظر آتے تھے یہ چھوٹے سپاہی بھی جانبازی کیلئے ہمہ تن مستعد تھے بعض اور بچوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھ لیا تھا انہیں جنگ خندق کے لشکر میں بھرتی کیا گیا جنگ خندق اس کے دو سال بعد ہوئی تھی ، قریشی کا لشکر بڑے ٹھاٹھے سے مقابلہ پر آڈٹا یہ تین ہزار سپاہیوں کا گروہ تھا ان کے ساتھ دو سو کوتل گھوڑے تھے جنہیں موقعہ پر کام آنے کیلئے ساتھ رکھا تھا ان کے داہنے حصہ پر خالد بن ولید تھا اور بائیں حصہ پر عکرمہ بن ابو جہل تھا ( یہ دونوں سردار بعد میں مسلمان ہو گئے تھے رضی اللہ تعالیٰ عنہما ) ان کا جھنڈے بردار قبیلہ بنو عبدالدار تھا ، پھر لڑائی شروع ہوئی جس کے تفصیلی واقعات انہی آیتوں کی موقعہ بہ موقعہ تفسیر کے ساتھ آتے رہیں گے انشاء اللہ تعالیٰ ۔ الغرض اس آیت میں اسی کا بیان ہو رہا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ شریف سے نکلے اور لوگوں کو لڑائی کے مواقعہ کی جگہ مقرر کرنے لگے میمنہ میسرہ لشکر کا مقرر کیا اللہ تعالیٰ تمام باتوں کو سننے والا اور سب کے دلوں کے بھید جاننے والا ہے ، روایتوں میں یہ آچکا ہے کہ حضور علیہ السلام جمعہ کے دن مدینہ شریف سے لڑائی کیلئے نکلے اور قرآن فرماتا ہے صبح ہی صبح تم لشکریوں کی جگہ مقرر کرتے تھے تو مطلب یہ ہے کہ جمعہ کے دن تو جا کر پڑاؤ ڈال دیا باقی کاروائی ہفتہ کی صبح شروع ہوئی ۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ہمارے بارے میں یعنی بنو حارثہ اور بنو سلمہ کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے کہ تمہارے دو گروہوں بزدلی کا ارادہ کیا تھا گو اس میں ہماری ایک کمزوری کا بیان ہے لیکن ہم اپنے حق میں اس آیت کو بہت بہتر جانتے ہیں کیونکہ اس میں یہ بھی فرم

Answer #: 2414

الجواب حامدا ومصلیا

            موبائل کی اسکرین چونکہ درمیان میں حائل ہوتی ہے، اور قرآنی آیات نیچے ہوتی ہیں،  اس لیے واٹس ایپ پر قرآن پاک کی تفسیرابن کثیر یا کسی اور تفسیر کو بغیر وضو کے پڑھ سکتے ہیں ، البتہ ادب کا تقاضا یہ  ہے  کہ سکرین کے اس حصہ کوبےوضو نہ چھوئےجس کے نیچے آیت ہو، بلکہ کوشش کرے کہ باوضو ہوکر   مطالعہ کرے  یا اسکرین  کے اس حصہ کو چھوئے کہ جس کے نیچے آیت لکھی ہوئی نہ ہو۔

فی الدر المختار – (1 / 178)

تكره إذابة درهم عليه آية إلا إذا كسره رقية في غلاف متجاف لم يكره دخول الخلاء به، والاحتراز أفضل

حاشية ابن عابدين– (1 / 178)

(قوله: رقية إلخ) الظاهر أن المراد بها ما يسمونه الآن بالهيكل والحمائلي المشتمل على الآيات القرآنية، فإذا كان غلافه منفصلا عنه كالمشمع ونحوه جاز دخول الخلاء به ومسه وحمله للجنب.

حاشية ابن عابدين (رد المحتار) – (1 / 293)

(قوله ومسه) أي القرآن ولو في لوح أو درهم أو حائط، لكن لا يمنع إلا من مس المكتوب، بخلاف المصحف فلا يجوز مس الجلد وموضع البياض منه.

والله اعلم بالصواب

احقرمحمد ابوبکر صدیق  غفراللہ لہ

دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ

18 ، شعبان ، 1440ھ

24 ، اپریل ، 2019ء