25 Apr, 2024 | 16 Shawwal, 1445 AH

Question #: 2887

December 16, 2021

کیا بالوں میں کلر کرنا جائز ہے؟ اس سے وضو یا غسل ھوتا ہے یا نہیں ؟ بعض حضرات کہتے ہیں کہ لگا سکتے ہیں اگر کم عمر میں سفید ھو جائیں۔ لیکن اگر بالوں پر نیل پالش کی طرح کوٹنگ نہ آئے۔ اس بارے میں بھی رہنمائی کریں۔ ااگر یہ جائز ھے تو کس طرح معلوم ھو کہ کون سا کلر کوٹنگ دے گا اور کون سا نہیں ؟ جزاک اللہ

Answer #: 2887

الجواب حامدا ومصلیا

  1. واضح رہے کہ خضاب کے استعمال میں درج ذیل تفصیل ہےکہ
    1. سیاہ رنگ کے علاوہ دوسرے رنگ مثلاًخالص سُرخ یا سیاہی مائل سُرخ یا براؤن رنگ  کا خضاب لگانا جا ئز، بلکہ مستحب ہے۔
    2. سرخ خضاب جس میں کتم(ایک بوٹی ہے،جس سے مہندی کا رنگ سیاہی مائل ہوجاتا ہے)  شامل ہو، یہ مسنون ہے

سیاہ خضاب لگانے کی متعدد صورتیں ہیں :

  1. مجاہد میدانِ جہاد میں دشمن کو مرعوب کرنے کیلئے سیاہ خضاب استعمال کرے ،یہ صورت سب ائمّہ  کے نزدیک جائز ہے۔
  2. کسی کا دھوکا دینے اور اس کے سامنے اپنے آپ کو جوان ظاہر کرنے کیلئے سیاہ خضاب لگانا سب کے نزدیک  ناجائز ہے۔ البتہ اگر وقت سے پہلے جوانی کی عمر میں بال سفید ہوجائیں، تو انہیں سیاہ خضاب لگاسکتے ہیں، جس کی آخری حد  40 سال ہے، اس کے بعد درست نہیں۔
  3. بیوی کو خوش کرنے کیلئے محض زینت کے طورپر اس کا استعمال کرنا راجح اوراکثر علماء کے نزدیک مکروہ تحریمی ، یعنی حرام ہے ،البتہ بعض علماء اس  اس کے جواز کے قائل ہیں،  لیکن احادیث میں ممانعت اور سخت وعید کے پیشِ نظر اس سے  اجتناب لازم ہے، جیساکہ اکثر علماء کی رائے ہے۔
  1. عام طور پر بالوں کا رنگ تبدیل کرنے کے لیے جو مہندی یا خضاب آتے ہیں وہ پانی کے جلد تک پہنچنے سے مانع نہیں ہوتے یعنی وہ لگا لینے سے پانی رکتا نہیں، بلکہ جلد تک پہنچ جاتا ہے، تو اس قسم کی مہندی وغیرہ کو استعمال کرنا جائز ہو گا، اسی طرح اگر کوئی کلر ایسا ہے جس کی بالوں پر الگ سے کوئی تہہ نہیں جمتی، بلکہ وہ صرف بالوں کا رنگ تبدیل کرتا ہو تو وہ لگانا جائز ہو گا، لیکن اگر کوئی کلر ایسا ہو جس کی تہہ بالوں پر جم جاتی ہو جو کہ مشاہدہ سے معلوم ہو سکتا ہے، تو ایسے کلر کے لگانے سے چوں کہ وضو نہیں ہو گا؛ اس لیے ایسا کلر لگانے کی اجازت نہیں ہو گی۔

فی سنن أبى داود - (رقم الحدیث: 3679)

عن ابن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يكون قوم يخضبون في آخر الزمان بالسواد كحواصل الحمام لا يريحون رائحة الجنة

وفی الفتاوى الهندية - (ج 5 / ص 359)

وأما الخضاب بالسواد فمن فعل ذلك من الغزاة ليكون أهيب في عين العدو فهو محمود منه اتفق عليه المشايخ رحمهم الله تعالى ومن فعل ذلك ليزين نفسه للنساء وليحبب نفسه إليهن فذلك مكروه وعليه عامة المشايخ وبعضهم جوز ذلك من غير كراهة وروي عن أبي يوسف رحمه الله تعالى أنه قال كما يعجبني أن تتزين لي يعجبها أن أتزين لها

وفی مشكل الآثار للطحاوي - (ج 8 / ص 204)

 عن ابن عباس ، رفعه قال : « يكون قوم في آخر الزمان يخضبون بالسواد كحواصل الحمام، لا يريحون رائحة الجنة » فعقلنا بذلك أن الكراهة إنما كانت لذلك ، لأنه أفعال قوم مذمومين ، لا لأنه في نفسه حرام ، وقد خضب ناس من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم بالسواد ، منهم : عقبة بن عامر .

وفی مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (ج 13 / ص 188)

 قال ميرك ذهب أكثر العلماء إلى كراهة الخضاب بالسواد وجنح النووي إلى أنها كراهة تحريم وإن من العلماء من رخص فيه في الجهاد ولم يرخص في غيره ومنهم من فرق في ذلك بين الرجل والمرأة فأجازه لها دون الرجل واختاره الحليمي.

والله اعلم بالصواب

احقرمحمد ابوبکر صدیق غَفَرَاللہُ لَہٗ

دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ