Question #: 2926
March 02, 2022
Answer #: 2926
الجواب حامدا ومصلیا
دارالحرب میں وہاں کے کافر سے سود کے جائز نہ ہونے کے بارے میں علماء کرام کے درمیان اختلاف ہے چنانچہ جمہور فقہاء کرام یعنی حضرت امام شافعی ؒ اور حضرت امام مالک ؒ اور حضرت امام احمد ؒ اور ائمہ احنافؒ میں سے امام ابو یوسف ؒ دارالحرب میں کافر حربی سے سود کو مطلقاً ناجائز اور حرام کہتے ہیں ۔ البتہ ائمہ احنافؒ میں سے حضرت امام ابو حنیفہؒ اور حضرت ا مام محمد ؒ دارالحرب میں کافر حربی سے سود کو چند شرائط کے ساتھ جائز کہتے ہیں ۔
چونکہ قرآن کریم کی نصوص اور احادیث مبارکہ کی تصریحات میں سود کالین دین ہر جگہ حرام قرار دیا گیا ہے، اس میں مسلم ، غیر مسلم ملک میں کوئی فرق نہیں کیا گیا،اس لیے جمہور ائمّہ کا مسلک یہی ہے کہ غیر مسلم ملک میں بھی کافرکے ساتھ سودی لین دین نا جائز ہے اور فتویٰ بھی اسی پر ہے ،لہذا کافر ملکوں میں بھی سودی بینکوں سے سودی معاملات کرنے سے اجتناب لازم ہے۔
جناب طاہر القادری صاحب کی دلیل کمزور ہے اور احتیاط کے خلاف ہے، جبکہ دیگر علماء کرام کی دلیل مضبوط ہے اور اس میں احتیاط ہے۔
جب بیوی نے شوہر کو دار الحرب میں سود کے حرام ہونے کے بارے میں سمجھادیا ہے تو اب بیوی کو شوہر سے اس بارے میں مزید بحث ومباحثہ نہیں کرنا چاہیے ۔
والله اعلم بالصواب
احقرمحمد ابوبکر صدیق غَفَرَاللہُ لَہٗ
دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ