29 Apr, 2024 | 20 Shawwal, 1445 AH

Question #: 3184

May 14, 2023

السلام علیکم میرا نام حافظ محمد مبشر اقبال ہے میں فارماسسٹ ہوں ، میرا تعلق ضلع جھنگ سے ہے میرا سوال یہ ہے کہ مجھے پچھلے دس سال سے پیشاب کرنے کے بعد قطرے آتے رہتے ہیں پیشاب کرنے کے بعد آدھا گھنٹہ تک تو زیادہ آتے ہیں لیکن اس کے بعد بھی کبھی کبھی دو ،تین گھنٹے میں ایک آدھ قطرہ خارج ہو جاتا ہے علاج کروایا ہے لیکن کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا اسلئے میں نماز پڑھتے وقت بہت پریشان ہوتا ہوں جاب پر ہونے کی وجہ سے اور گھر سے دور ہونے کی وجہ سے بار بار کپڑے نہیں تبدیل کر سکتا اور نہ دھو سکتا ہوں تو اس صورتحال میں مجھے کیا کرنا چاہیے مجھے بہت پریشانی رہتی ہے کہ نماز ہوئی ہے یا نہیں ؟ ازراہ کرم میری رہنمائی فرمائیں کیا میں نماز ادا کرتا رہوں انہی کپڑوں میں جب وہ تبدیل کرنا ممکن نہ ہوں ؟

Answer #: 3184

الجواب حامدا ومصلیا

جواب سے پہلےچند اصولی باتیں سمجھ لینا ضروری ہے :

            ۱۔ شرعاً  طہارت کے احکام میں معذور وہ شخص کہلاتا ہے جس کا کسی   بھی ایک  نماز  کا پورا  وقت کسی ناقضِ وضو عذر (مثلاً پیشاب، نکسیر وغیرہ) کے ساتھ اس طرح گذر جائے کہ درمیان میں وضو کرکے صرف فرض نماز پڑھنے کا بھی وقت نہ ملے،تو ایسا شخص شرعی معذور کہلاتا ہے ،لیکن اگر نماز کےوقت کے اندروضو کرکے فرض نماز پڑھنے کے بقدر وقت مل جائے تو یہ شخص شرعاً معذور نہیں کہلائے گا ۔

            ۲۔ ذکر کردہ تعریف کے مطابق جو شخص ایک مرتبہ شرعی طور پر معذور قرار پائے  تو اس کے معذور کے حکم میں باقی رہنے کے لئے اگلی نماز کے وقت کے اندر ایک مرتبہ بھی اس ناقضِ وضو عذر کا پیش آجانا کافی ہے، مستقل جاری رہنا، اورمسلسل  پیش آنا ضروری نہیں،البتہ اگر ایک نماز کا مکمل وقت اس طرح گذر جائے کہ جس میں ایک دفعہ بھی یہ عذر پیش نہ آئے تو یہ شخص معذور کے حکم سے نکل  جائے گا ۔

            ۳۔ معذور شخص کو اس عذر کے علاوہ جس میں وہ مبتلا ہے کوئی اور ناقض وضو پیش آجائے،  مثلاً،  ریح خارج  ہو جائے یا خون نکل آئے  ،تو اس صورت میں وضو ٹوٹ جائے گا اور دوبارہ نیا وضو کرنا ہوگا ۔

            اس کے بعدآپ کےسوال کا جواب یہ ہے کہ درج  بالا تفصیل کے مطابق  اگر  آپ کو ایک  نماز  کے پورے  وقت  میں  پیشاب نکلنے کی وجہ سےاتنا  وقفہ بھی نہیں ملتا کہ جس میں آپ وضو کرکے صرف فرض نماز پڑھ سکیں ،تو ایسی صورت میں  آپ  شرعاً معذور  ہیں ۔ اس صورت میں آپ کے لیے حکم یہ ہے کہ  آپ ایک نماز کے وقت کے لئے وضو کریں اور اس وضو سےاس نماز کے وقت  کے اندر جتنی نمازیں چاہیں فرض ، واجب، سنت، نفل، قضاءاور ادا سب پڑھ سکتے ہیں ،نماز کے اندر  اور اس کے بعدوقت کےختم ہونے تک پیشاب کے نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹے گا، البتہ جب نماز کا وقت ختم ہوجائے تو وضو ٹوٹ جائے گا اور اگلی نماز کے وقت کے لئے دوبارہ وضو کرنا پڑے گا ۔

            اور معذور ہونے کی صورت میں دورانِ نماز جو پیشاب نکل کر کپڑے یا جسم پر لگ جائے، تو استنجا کرنے اور کپڑوں کو دھونے کے متعلق حکم یہ ہے کہ اگر پیشاب  اتنی کثرت سے نکل  آتا ہوکہ ایک دفعہ استنجا کرنے اور دھونے کے بعد نماز مکمل کرنے سے پہلےپہلے  دوبارہ نکل  کر پھر کپڑوں پر لگ جاتاہو، تو ایسی صورت میں کپڑوں اور جسم کودھونا واجب نہیں ۔

اگر  آپ کوایک  نماز  کے  پورے   وقت میں پیشاب کے نکلنے کے بعد   اتنا وقفہ ملتا ہو  کہ جس میں آپ وضو کرکے صرف فرض نماز پڑھ سکیں ، تو آپ شرعاًمعذور نہیں ہیں۔  اور اس صورت میں باوضو ہوکر نماز پڑھنا  ضروری ہے۔ اور جو نمازیں قطرہ نکلنے کے بعد اور  دوبارہ وضو کیے بغیر پڑھی جائیں گی تو ان کو دوبارہ کرنا پڑے گا۔

  یہ بات  رکھیں کہ جس کو نماز کی وجہ سے  جتنا زیادہ  مشقت برداشت  کرنی پڑتی ہے،اس کو اجر بھی اتنازیادہ ملتا ہے، لہذا آپ اس مشقت پر اللہ سے اجر کی امید رکھیں، اور نماز کو ادا کرتے رہیں۔ اگر اس کی وجہ سے خشوع میں کچھ خلل آتا ہو، تو کوئی مضائقہ نہیں۔

الدر المختار - (ج 1 / ص 305)

( وصاحب عذر من به سلس ) بول لا يمكنه إمساكه ( أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة ) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة ( إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة ) بأن لا يجد في جميع وقتها زمنا يتوضأ ويصلي فيه خاليا عن الحدث ( ولو حكما ) لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم ( وهذا شرط) العذر ( في حق الابتداء وفي ) حق ( البقاء كفي وجوده في جزء من الوقت ) ولو مرة ( وفي ) حق الزوال يشترط ( استيعاب الانقطاع ) تمام الوقت ( حقيقة ) لأنه الانقطاع الكامل ( وحكمه الوضوء ) لا غسل ثوبه ( لكل فرض ) اللام للوقت كما في لدلوك الشمس  ( الإسراء 18 ) ( ثم يصلي ) به ( فيه فرضا ونفلا ) فدخل الواجب بالأولى ( فإذا خرج الوقت بطل ) أي ظهر حدثه السابق حتى لو توضأ على الانقطاع ودام إلى خروجه لم يبطل بالخروج ما لم يطرأ حدث آخر أو يسيل كمسألة مسح خفه  وأفاد أنه لو توضأ بعد الطلوع ولو لعيد أو ضحى لم يبطل إلا بخروج وقت الظهر  ( وإن سال على ثوبه ) فوق الدرهم ( جاز له أن لا يغسله إن كان لو غسله تنجس قبل الفراغ منها ) أي الصلاة ( وإلا ) يتنجس قبل فراغه ( فلا ) يجوز ترك غسله هو المختار للفتوى            

بدائع الصنائع - (ج 1 / ص 129)

وإنما تبقى طهارة صاحب العذر في الوقت إذا لم يحدث حدثا آخر أما إذا أحدث حدثا آخر ، فلا تبقى ، لأن الضرورة في الدم السائل لا في غيره فكان هو في غيره كالصحيح قبل الوضوء ، وكذلك إذا توضأ للحدث أو لا ، ثم سال الدم فعليه الوضوء ، لأن ذلك الوضوء لم يقع لعدم العذر فكان عدما في حقه .وكذا إذا سال الدم من أحد منخريه فتوضأ ، ثم سال من المنخر الآخر فعليه الوضوء ، لأن هذا حدث جديد لم يكن موجودا وقت الطهارة فلم تقع الطهارة له فكان هو ، والبول ، والغائط سواء فأما إذا سال منهما جميعا فتوضأ ، ثم انقطع أحدهما فهو على وضوء ما بقي الوقت لأن طهارته حصلت لهما جميعا .والطهارة متى وقعت لعذر لا يضرها السيلان ما بقي الوقت فبقي هو صاحب عذر بالمنخر الآخر ، وعلى هذا حكم صاحب القروح إذا كان البعض سائلا ثم سال الآخر ، أو كان الكل سائلا فانقطع السيلان عن البعض.

والله اعلم بالصواب

احقرمحمد ابوبکر صدیق غَفَرَاللہُ لَہٗ

دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ