28 Apr, 2024 | 19 Shawwal, 1445 AH

Question #: 3246

November 17, 2023

مجھے پچھلے دس سال سے پیشاب کرنے کے بعد قطرے آتے رہتے ہیں پیشاب کرنے کے بعد آدھا گھنٹہ تک تو زیادہ آتے ہیں لیکن اس کے بعد بھی کبھی کبھی دو ،تین گھنٹے میں ایک آدھ قطرہ خارج ہو جاتا ہے علاج کروایا ہے لیکن کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا اسلئے میں نماز پڑھتے وقت بہت پریشان ہوتا ہوں جاب پر ہونے کی وجہ سے اور گھر سے دور ہونے کی وجہ سے بار بار کپڑے نہیں تبدیل کر سکتا اور نہ دھو سکتا ہوں تو اس صورتحال میں مجھے کیا کرنا چاہیے مجھے بہت پریشانی رہتی ہے کہ نماز ہوئی ہے یا نہیں ؟ ازراہ کرم میری رہنمائی فرمائیں کیا میں نماز ادا کرتا رہوں انہی کپڑوں میں جب وہ تبدیل کرنا ممکن نہ ہوں- Mera muamla bhi isi tarah hai, to is masle me Quran padne ke bare me tfsili wazahat farmain

Answer #: 3246

الجواب حامدا ومصلیا

  1. صورت مسؤلہ میں آپ کو  کچھ دیر تک پیشاب کے قطرے آنے کے بعد بند ہوجاتے ہیں، ہر وقت نہیں آتے  تو آپ شرعاً معذورین میں شامل نہیں ہیں۔ اس لیے آپ کا وضو اِن قطروں سے ٹوٹ جائے گا اور کپڑے بھی ناپاک ہوجائیں گے اور ان کا دھونا (جب کہ وہ ہتھیلی کے پھیلاؤ سے بڑھ جائیں) واجب ہوگا۔ اس صورت میں آپ نماز سے کافی پہلے ہی پیشاب کر کے فارغ ہوجائیں اور اس کے بعد پیشاب کے قطروں کے خارج ہونے تک انتظار کریں، جب قطرے بند ہوجائیں اور آپ کو اطمینان حاصل ہوجائے تو پھر اس کے بعد وضو کرکے نماز ادا کریں۔

بہتر یہ ہوگا کہ آپ نماز کے وقت کے لیے الگ کپڑا رکھیں اور دیگر اوقات کے لیے الگ کپڑا رکھیں، پھر بھی اگر نماز کے وقت پہنے ہوئے کپڑوں میں قطرے نکل آئیں تو اس کو پاک کرلیں۔

یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ پیشاب کی ترتیب نماز کےاوقات کے علاوہ کا بنا لیں ، پھر   پیشاب کے بعد انڈر وئیر کے اندر چھوٹے رومال کی طرح کا کپڑا رکھ لیں اور   پھر  دو تین گھنٹے بعد  جب قطرے کے بارے میں اطمینان ہوجائے تو یہ کپڑا نکال لیں ، اس سے کپڑے بدلنے کی مشقت سے بچ جائیں گے۔

  1. واضح رہے کہ طواف کےلیے وضو کرنا واجب ہے اور سعی کےلیے وضو سنت ہے، لہذا اگر کسی نے عمرہ کا طواف وسعی دونوں بے وضو کئے اور احرام سے نکل گیا تو جب تک وہ مکہ مکرمہ میں ہے، دونوں کا اعادہ کرے ( اس پر طواف کا اعادہ واجب ہے کیونکہ یہ اصل ہے اور سعی کا اعادہ افضل ہے کیونکہ وہ طواف کے تابع ہے) اور ان دونوں کا اعادہ کرلینے پر کچھ واجب نہ ہوگا۔ اسی طرح اگر طواف کا اعادہ کیا، لیکن سعی کا اعادہ نہیں کیا تب بھی صحیح یہ ہے کہ اس پر کچھ واجب نہ ہوگا، اس لئے کہ سعی کے لئے طہارت شرط نہیں ہے۔ اور اگر طواف کا اعادہ نہیں کیا اور اپنے اہل وعیال کی طرف وطن لوٹ گیا تو ترکِ واجب (طہارت ترک کرنے کی وجہ) سے اس پر بطور دم ایک بکری واجب ہوگی، جو حدود حرم میں ذبح کی جائےگی تو اس کا عمرہ ادا ہوجائے،اور اس پر واپس مکہ مکرمہ جانا لازم نہیں ہوگا۔

فی الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 305):

’’(وصاحب عذر من به سلس) بول لا يمكنه إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة) بأن لا يجد في جميع وقتها زمناً يتوضأ ويصلي فيه خالياً عن الحدث (ولو حكماً)؛ لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرةً (وفي) حق الزوال يشترط (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقة)؛ لأنه الانقطاع الكامل. ونحوه (لكل فرض) اللام للوقت كما في - {لدلوك الشمس} [الإسراء: 78]- (ثم يصلي) به (فيه فرضاً ونفلاً) فدخل الواجب بالأولى (فإذا خرج الوقت بطل) أي: ظهر حدثه السابق، حتى لو توضأ على الانقطاع ودام إلى خروجه لم يبطل بالخروج ما لم يطرأ حدث آخر أو يسيل كمسألة مسح خفه. وأفاد أنه لو توضأ بعد الطلوع ولو لعيد أو ضحى لم يبطل إلا بخروج وقت الظهر.(وإن سال على ثوبه) فوق الدرهم (جاز له أن لا يغسله إن كان لو غسله تنجس قبل الفراغ منها) أي: الصلاة (وإلا) يتنجس قبل فراغه (فلا) يجوز ترك غسله، هو المختار للفتوى، وكذا مريض لا يبسط ثوبه إلا تنجس فورا له تركه (و) المعذور (إنما تبقى طهارته في الوقت) بشرطين (إذا) توضأ لعذره و (لم يطرأ عليه حدث آخر، أما إذا) توضأ لحدث آخر وعذره منقطع ثم سال أو توضأ لعذره ثم (طرأ) عليه حدث آخر، بأن سال أحد منخريه أو جرحيه أو قرحتيه ولو من جدري ثم سال الآخر (فلا) تبقى طهارته‘‘.

وفي الهندیة(1/40,41):

’’شرط ثبوت العذر ابتداءً أن یستوعب استمراره وقت الصلاة کاملاً، وهو الأظهر، کالانقطاع لایثبت مالم یستوعب الوقت کله ... المستحاضة ومن به سلس البول … یتوضؤن لوقت کل صلاة، ویصلون بذلک الوضوء في الوقت ماشاؤا من الفرائض و النوافل … ویبطل الوضوء عند خروج وقت المفروضة بالحدث السابق … إذا کان به جرح سائل وقد شد علیه خرقةً فأصابها الدم أکثر من قدر الدرهم، أو أصاب ثوبه إن کان بحال لوغسله یتنجس ثانیاً قبل الفراغ من الصلاة، جاز أن لا یغسله وصلی قبل أن یغسله وإلا فلا، هذا هو المختار‘‘.

الهندية: (245/1، ط: دار الفکر)

إذا طاف للعمرة محدثا أو جنبا فما دام بمكة يعيد الطواف فإن رجع إلى أهله ولم يعد ففي المحدث تلزمه الشاة وفي الجنب تكفيه الشاة استحسانا هكذا في المحيط.
ومن طاف لعمرته وسعى على غير وضوء فما دام بمكة يعيدهما فإذا أعادهما لا شيء عليه فإن رجع إلى أهله قبل أن يعيد فعليه دم لترك الطهارة فيه ولا يؤمر بالعود لوقوع التحلل بأداء الركن وليس عليه في السعي شيء وكذا إذا أعاد الطواف ولم يعد السعي في الصحيح كذا في الهداية.

وفی غنية الناسك: (المطلب الرابع فى ترم الواجب فى طواف العمرة، ص: 276،)
لو طاف للعمرة كله أو أكثره أو أقله و لو شوطا جنبا أو حائضا أو نفساء أو محدثا فعليه شاة لا فرق بين القليل و الكثير و الجنب و المحدث لأنه لا مدخل فى طواف العمرة للبدنة و لا للصدقة بخلاف طواف الزيارة....لو طاف للعمرة محدثا و سعى بعده فعليه دم، إن يعد الطواف و رجع إلى أهله و ليس عليه شيء بترك إعادة السعى ، و كذا لو أعاد الطواف و لم يعد السعى لاشيء عليه، و فى الجنابة إن لم يعد السعى فعليه دم.

الموسوعة الفقهیة الکویتیة: (131/29، ط: دار السلاسل)
وقال الحنفیة: الطهارة من الحدث ومن الخبث واجب للطواف.

والله اعلم بالصواب

احقرمحمد ابوبکر صدیق غَفَرَاللہُ لَہٗ

دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ