Question #: 2508
October 18, 2019
Answer #: 2508
الجواب حامدا ومصلیا
اگر بدن کے کسی حصہ پر ایسی چیز لگ جائے، جو بدن تک پانی نہ پہنچنے دے ، تو اس کا دور کرنا ضروری ہے، لہذا اگر دانتوں پر گلو لگ جائے، تو اصل حکم اس کو چھڑانے کا ہے، لیکن اگر پوری کوشش کے باوجود کچھ حصہ رہ جائے تو ضرورت اور حرج کی وجہ سے غسل درست ہوجائے گا۔ لہذا صورت مسؤلہ میں پوری کوشش کے باوجود وہ رہ جاتا ہے توغسل ہوجائے گا اور اگر ڈاکٹر غفلت کرتا ہے کہ کچھ حصہ چھوڑدیتا ہے اور کچھ حصہ اتاردیتا ہے تو پھر غسل نہیں ہوگا اور دوسرے ڈاکٹر کے پاس جاکر اچھے طریقے سے صاف کرانا ہوگا۔
فی الھندیة : ( 1 / 4)
ﻭﻓﻲ اﻟﺠﺎﻣﻊ اﻟﺼﻐﻴﺮ ﺳﺌﻞ ﺃﺑﻮ اﻟﻘﺎﺳﻢ ﻋﻦ ﻭاﻓﺮ اﻟﻈﻔﺮ اﻟﺬﻱ ﻳﺒﻘﻰ ﻓﻲ ﺃﻇﻔﺎﺭﻩ اﻟﺪﺭﻥ ﺃﻭ اﻟﺬﻱ ﻳﻌﻤﻞ ﻋﻤﻞ اﻟﻄﻴﻦ ﺃﻭ اﻟﻤﺮﺃﺓ اﻟﺘﻲ ﺻﺒﻐﺖ ﺃﺻﺒﻌﻬﺎ ﺑﺎﻟﺤﻨﺎء، ﺃﻭ اﻟﺼﺮاﻡ، ﺃﻭ اﻟﺼﺒﺎﻍ ﻗﺎﻝ ﻛﻞ ﺫﻟﻚ ﺳﻮاء ﻳﺠﺰﻳﻬﻢ ﻭﺿﻮءﻫﻢ ﺇﺫ ﻻ ﻳﺴﺘﻄﺎﻉ اﻻﻣﺘﻨﺎﻉ ﻋﻨﻪ ﺇﻻ ﺑﺤﺮﺝ ﻭاﻟﻔﺘﻮﻯ ﻋﻠﻰ اﻟﺠﻮاﺯ ﻣﻦ ﻏﻴﺮ ﻓﺼﻞ ﺑﻴﻦ اﻟﻤﺪﻧﻲ ﻭاﻟﻘﺮﻭﻱ. ﻛﺬا ﻓﻲ اﻟﺬﺧﻴﺮﺓ ﻭﻛﺬا اﻟﺨﺒﺎﺯ ﺇﺫا ﻛﺎﻥ ﻭاﻓﺮ اﻷﻇﻔﺎﺭ. ﻛﺬا ﻓﻲ اﻟﺰاﻫﺪﻱ ﻧﺎﻗﻼ ﻋﻦ اﻟﺠﺎﻣﻊ اﻷﺻﻐﺮ. ﻭاﻟﺨﻀﺎﺏ ﺇﺫا ﺗﺠﺴﺪ ﻭﻳﺒﺲ ﻳﻤﻨﻊ ﺗﻤﺎﻡ اﻟﻮﺿﻮء ﻭاﻟﻐﺴﻞ. ﻛﺬا ﻓﻲ اﻟﺴﺮاﺝ اﻟﻮﻫﺎﺝ ﻧﺎﻗﻼ ﻋﻦ اﻟﻮﺟﻴﺰ.
والله اعلم بالصواب
احقرمحمد ابوبکر صدیق غَفَرَاللّٰہُ لَہٗ
دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ