25 Apr, 2024 | 16 Shawwal, 1445 AH

Question #: 2687

November 05, 2020

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص فوت ہوگیا اور ترکہ میں ۱۵ مرلہ زمین چھوڑ گیا اور ورثہ میں ۴ بیٹے ۳ بیٹیاں اور ایک بیوی چھوڑ گیا۔ زمین کو چار بیٹوں میں تقسیم کر دیا گیا باقیوں کو کوئی حصہ نہیں دیا گیا۔ لیکن اب جبکہ والدہ فوت ہوگئی ایک بیٹا کہتا ہے کہ میرے حصے میں بہنوں کا اور والدہ کا جو حصہ ہے وہ دینا چاہتا ہوں۔ تو اب وہ کتنا حصہ اپنی بہنوں کو دے گا؟ اور جو شخص بہنوں کا حصہ دینا چاہتا ہے اس کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے ۔ اب وہ چاہتا ہے کہ میں ابھی اپنی زندگی میں ہی اپنی بیٹیوں اور بیٹے کو وراثت کے مطابق زمین میں سے حصہ دینا چاہتا ہوں تو اس کی تقسیم کا طریقہ کار کیا ہوگا؟ اجیبوا توجروا

Answer #: 2687

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام

  1. اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص فوت ہوگیا اور ترکہ میں ۱۵ مرلہ زمین چھوڑ گیا اور ورثہ میں ۴ بیٹے ۳ بیٹیاں اور ایک بیوی چھوڑ گیا۔ زمین کو چار بیٹوں میں تقسیم کر دیا گیا باقیوں کو کوئی حصہ نہیں دیا گیا۔ لیکن اب جبکہ والدہ فوت ہوگئی ایک بیٹا کہتا ہے کہ میرے حصے میں بہنوں کا اور والدہ کا جو حصہ ہے وہ دینا چاہتا ہوں۔ تو اب وہ کتنا حصہ اپنی بہنوں کو دے گا؟
  2. جو شخص بہنوں کا حصہ دینا چاہتا ہے اس کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے ۔ اب وہ چاہتا ہے کہ میں ابھی اپنی زندگی میں ہی اپنی بیٹیوں اور بیٹے کو وراثت کے مطابق زمین میں سے حصہ دینا چاہتا ہوں تو اس کی تقسیم کا طریقہ کار کیا ہوگا؟ اجیبوا توجروا

الجواب حامدا ومصلیا

  1. میراث میں بہنوں کو حصہ نہ دینا اور ساری جائیداد خود رکھ لینا جائز نہیں ہے، حرام ہے، حدیث شریف  میں ہے کہ ’’جو شخص ظلماً کسی کی زمین لے گا،تو اس کے گلے میں سات طوق بناکر ڈال دی جائیں گی،یعنی قیامت کے دن اس کو سات زمینوں تک زمین میں دھنسا دیا جائے گا‘‘

        لہذا سب بھائیوں پر لازم ہے  کہ بہنوں کو حصہ دیں۔ اور مذکورہ صورت میں میراث تقسیم کرنے طریقہ یہ ہے کہ  مذکورہ زمین کے کل گیارہ   حصے کردیں، ہر بھائی کو دو دو  حصے دیے جائیں، اور ہر بہن کو ایک ایک حصہ دیا جائے۔

             اگر سب  بھائی  اپنی بہنوں کو حصہ نہ دیں تو جو بھائی حصہ دینا چاہتا ہے وہ اپنے دو حصوں میں سے زائد زمین یا اس کی قیمت  کواپنی تینوں بہنوں میں برابر تقسیم کردے۔

  1. اصل جواب سے پہلے بطورِ تمہید یہ سمجھناضروری ہے  کہ ان  پر اپنی زندگی میں اپنی جائیداد اپنی اولاد میں تقسیم کرنا اور ان کے نام کرنا واجب نہیں، البتہ اگروہ اپنی دلی خوشی سے اپنی صحت کی زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان جائیداد وغیرہ تقسیم کرنا چاہیں تو شرعاً  ایسا کر سکتے ہیں لیکن یہ واضح رہے کہ وہ میراث نہیں کہلائے گی بلکہ ہبہ(گفٹ) کہلائے گااور اولادکے بارے میں ہبہ(گفٹ) کا اصول یہ ہے کہ سب کو دیا جائے کسی ایک کے نام نہ کیا جائےاور بہتر یہ ہے کہ سب کوبرابر دیاجائے تاہم میراث کے طریقہ کے مطابق لڑکی کو لڑکےسے آدھا دینے کی بھی گنجائش ہے ، لیکن اس بات کاخیال رکھنا ضروری ہے کہ جس کو جو کچھ دیا جائے باقاعدہ عملاًتقسیم کرکے مالک اورقابض بناکر دیاجائے صرف کاغذات میں نام کرادینا یا مشترکہ طور پر دینا کافی نہیں ۔

مشكاة المصابيح (ص:۲۶۶)

وعن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة " . رواه ابن ماجه

 مشكاة المصابيح (ص:۲۵۵)

وعن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " ألا لاتظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه.

صحيح البخاري: (۲۹۰/۱)

(رقم الحديث:۲۴۵۲) سعيد بن زيد رضي الله عنه قال سمعت رسول الله ? يقول من ظلم من الأرض شيئا طوقه من سبع أرضين.

الدر المختار - (5 / 690) ط سعيد

( وتتم ) الهبة ( بالقبض ) الكامل ( ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به) والأصل أن الموهوب إن مشغولا بملك الواهب منع تمامها وإن شاغلا لا

الفتاوى الهندية - (4 / 392) ط رشيدية

وإذا وهب لابنه وكتب به على شريكه فما لم يقبض لا يملكه ولو دفع إلى ابنه مالا فتصرف فيه الابن يكون للأب إلا إذا دلت دلالة على التمليك كذا في الملتقط.

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

بعد از سلام عرض ہے کہ شق ثانی (دوسرے جزء) میں اگر شرعی طریقے کے مطابق تقسیم کرنا چاہیں تو بیٹی کو بیٹوں سے نصف حصہ دیا جائے گا، مگر سائل چاہتا ہے کہ جو ترکہ (یعنی جو جائیداد و زمین) شخص واحد کے پاس ہے اس کو مکمل طور پر تقسیم کار واضح کر دیا جائے کہ بیٹی کے حصہ میں کتنے فٹ یا مرلے حصہ میں آئیں گے اور کتنے فٹ بیٹوں کے حصوں میں؟

                                                                                                جزاک اللہ احسن الجزاء

الجواب حامدا ومصلیا

اس کے لیے پراپرٹی والوں ،یا کسی ایسے شخص سے جو زمین کی تقسیم کو جانتا ہو، اس  سے تقسیم  کروا لیں۔

والله اعلم بالصواب

احقرمحمد ابوبکر صدیق  غَفَرَاللّٰہُ لَہٗ

دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ

‏10‏ جمادى الثانی‏، 1442ھ

‏24‏ جنوری‏، 2021ء