Question #: 2365
February 01, 2019
Answer #: 2365
السلام علیکم !
1. عالم کی فوٹو کی تعظیم کرنا شرک ہے، لیکن اگر عالم کا کوئی بیان انٹرنیٹ پر دیکھ رہے ہیں اور اتنا غم ہو گیا کہ ہل جل نہیں رہے تو کیا حکم ہے؟
2. کیا یہ دعا مانگ سکتے ہیں کہ ’’ یا اللہ اپنی اور اپنے محبوبﷺ کی صفات جو آپ کو ہمارے لیے پسند ہوں ان کا ذرہ برابر ہمیں بھی عطا فرما ۔ کیوں کہ عام امتی یا ولی کو نبی یا خدا کی صفات میں شریک نہیں کر سکتے۔
3. شیخ مولانا محمد زکریاؒ نے فضائل قرآن میں لکھا ہے کہ جس کا کلام پڑھیں اس کی صفات ہمارے اندر آ جاتی ہیں، جو حدیث پڑھاتے ہیں ان میں عاجزی ہوتی ہے، جو منطق پڑھاتے ہیں ان میں تکبر، اسی طرح جو قرآن پڑھاتے ہیں ان میں اللہ کی صفات آجاتی ہیں، اس بات کا کیا مطلب ہوا؟ کیوں کہ صفات میں شریک تو نہیں کر سکتے۔
4. کیا نماز کے دوران دل ہی دل میں کوئی دعا مانگ سکتے ہیں؟ جیسے کہ ’’ یا اللہ نماز میں خضوع عطا فرما‘‘ ؟ کیا اس سے نماز میں کوئی فق پڑتا ہے؟ اور کیا فرض ، سنت اور نفل نمازوں کا ایک ہی حکم ہے؟
الجواب حامدا ومصلیا
1- عالم کی فوٹو کی تعظیم کرنا جائز نہیں ہے، گناہ ہے، البتہ یہ تعظیم شرک نہیں ہے۔ البتہ کسی بزرگ کا بیان توجہ سے سننا مقصود ہو اور وہ انہماک اور توجہ سے سننے کی وجہ سے آرام سے بیٹھا ہے اور ہل جل نہیں رہا تو یہ جائز ہے ۔ ( ماخذہ : تصویر کے شرعی احکام : 90)
2- یہ دعا مانگنا کہ ’’یا اللہ اپنی اور اپنے محبوبﷺ کی صفات جو آپ کو ہمارے لیے پسند ہوں ان کا ذرہ برابر ہمیں بھی عطا فرما ‘‘ یہ جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
3- شرک یہ ہے کہ اللہ تعالی کی الوہیت (خدائی ) میں یا اس کی صفات خاصہ میں کسی کوشریک کیا جائے۔ اور فضائل قرآن میں جو لکھا ہے ، اس سے مراد وہ صفات ہیں کہ جس کو اپنانے کا اللہ تعالی نے بندوں کو حکم دیا ہے، جیسے رحم دل ہونا ، کسی پر ظلم نہ کرنا، انصاف کرنا ، نا انصافی نہ کرنا، اور اس سے وہ خاص صفات مراد نہیں ہیں ، جیسے اللہ تعالی کا ’’وحدہ لا شریک ‘‘ ہونا وغیرہ ۔ (ماخذہ : کفریہ الفاظ اور اس کے احکام : 23)
4- نماز کے دوران دل ہی دل میں دعا مانگنا کہ ’’ یا اللہ نماز میں خضوع عطا فرما‘‘ درست نہیں ہے، خواہ فرض نماز ہو یا سنت یا نفل ، البتہ نماز شروع کرنے سے پہلے یہ دعا کرسکتا ہے۔
اورنماز میں دل لگانے کا طریقہ یہ ہے ایک تو نماز پڑھنے سے پہلے نمازکی اہمیت کو اپنے دل کے اندر سوچے، اور نماز میں جو کچھ پڑھ رہا ہے ،اس کےالفاظ کی طرف دھیان رکھے۔ اور اگر درمیان میں خیال اِدھر اُدھر چلا جائے تو جب یاد آئے کہ نماز میں ہو ں تو فوراً نماز کی طرف متوجہ ہوجائے۔ اس طرح کرنے سے ان شاء اللہ نماز میں دل لگ جائے گا، لیکن اگر دل نہ لگے تب بھی نمازپڑھتے رہیں۔ اللہ اس پر بھی اجر دےگا، اور دل لگانے کی کوشش کرنے پر اور دل نہ لگنے کی صورت اس کڑھن کی تکلیف اٹھانے پر بھی اللہ اجر عطا فرمائے گا۔
نماز کے اندر خشوع، خضوع اور دل لگانے میں معاون چیز یہ بھی ہے کہ انسان اللہ والوں کی مجلس میں جایا کرے، ان کی بیانات سنا کرے، اور ان کی کتابوں کو پڑھا کرے، خصوصاً حضرت جی دامت برکاتہم العالیہ کے بیان سنیں ،اور ان کی کتاب ‘‘نماز کے ادبی اسرار و رموز’’ اور دیگر کتابیں پڑھیں، اور اس کے ساتھ ساتھ دعاؤں کاخوب اہتمام کریں۔
والله اعلم بالصواب
احقرمحمد ابوبکر صدیق غفراللہ لہ
دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ
۰۴ ، رجب المرجب ، ۱۴۴۰ھ
11 ، مارچ ، 2019ء