28 Mar, 2024 | 18 Ramadan, 1445 AH

Question #: 1942

April 22, 2017

Assalamoalaikum 1.kisi bhi napaak bartan ko paak krne ka kiaa tareeqa Hai?Usse pehle andr se dhoyen ya bahir se 2.jo napaki nazr ae jaise khoon,peshaab ya pakhana usse saaf krna to asan Hai lekin aisi napaki Jo dekhne me napaki na lgti ho Maslan aisa pani jisme Thora sa peshaab ka katra gir gya ho..Aisa napak pani kisi cheez pr gir jae to Kaise Pta chalega k paak hogya ya nahi

Answer #: 1942

السلام علیکم!

1-   کسی بھی ناپاک برتن  پاک کرنے کا کیا  طریقہ ہے۔ اسے پہلے اندر  سے دھویاجائے  یا باہر سے؟

2-    وہ نجاست جو نظر آتی ہے، اس کو پاک کرنا تو آسان ہے، اور وہ نجاست جو نظر نہیں آتی ، اس کو پاک کرنے کا کیا طریقہ ہے؟

الجواب حامدا ومصلیا

1-  پہلے اندر سے دھوئیں یا باہر سے ، یا دونوں کو ایک ساتھ دھوئیں،  یہ آپ  کی مرضی پر ہے، پہل اسی سے کرلیں جس میں آسانی ہو۔اس میں شریعت نے یہ پابند نہیں بنایا  کہ پہلے اندر سے دھویا جائے یا  باہر سے۔

2-  جو نجاست نظر نہیں آتی ، اس سے پاکی حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ  اس کو تین مرتبہ دھویا جائے، اور ہر مرتبہ نچوڑا جائے۔ اور تیسری مرتبہ اپنی طاقت کے مطابق زور سے  نچوڑا جائے۔ اس کے بعد وہ چیز پاک ہوجائے گی۔

اگر نجاست ایسی چیز میں لگی ہو ، جس کو نچوڑا نہیں  جاسکتا، جیسے تخت چٹائی ، مٹی یا چینی کے برتن وغیرہ  تو اس کو پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک دفعہ دھوکر ٹھہر جائے، جب پانی ٹپکنا بند ہوجائے ، تو دوسری  مرتبہ دھولے، اسی  طرح کچھ وقفے کے بعد جب پانی ٹپکنا بند ہوجائے تو تیسری بار دھولے۔ اس طرح تین بار دھولینے سے وہ چیز پاک ہوجائے گی۔

یہ بھی یاد رہے کہ جب کسی چیز کو پاک کرنے کے لیے ٹونٹی سے پانی  ڈالا جائے تو ا س میں نچوڑنے ، اور تین مرتبہ دھونا ضروری نہیں، بلکہ اس پر اتنا پانی بہا دینا کافی ہے ،جتنا دین دفعہ  دھونے پر خرچ ہوتا ہے۔  (کذا فی تسہیل بہشتی زیور:۱ / ۲۱۶،۲۲۵،   واحسن  الفتاوی:۲ /۹۲)

فی الدر المختار - (1/ 331)

(و) يطهر محل (غيرها) أي: غير مرئية (بغلبة ظن غاسل) لو مكلفا وإلا فمستعمل (طهارة محلها) بلا عدد به يفتى.

وفی حاشية ابن عابدين  - (1/ 331)

(قوله: بلا عدد به يفتى) كذا في المنية. وظاهره أنه لو غلب على ظنه زوالهما بمرة أجزأه وبه صرح الإمام الكرخي في مختصره واختاره الإمام الإسبيجابي. وفي غاية البيان أن التقدير بالثلاث ظاهر الرواية. وفي السراج اعتبار غلبة الظن مختار العراقيين، والتقدير بالثلاث مختار البخاريين والظاهر الأول إن لم يكن موسوسا وإن كان موسوسا فالثاني اهـ بحر. قال في النهر وهو توفيق حسن اهـ وعليه جرى صاحب المختار، فإنه اعتبر غلبة الظن إلا في الموسوس، وهو ما مشى عليه المصنف واستحسنه في الحلية وقال: وقد مشى الجم الغفير عليه في الاستنجاء. أقول: وهذا مبني على تحقق الخلاف، وهو أن القول بغلبة الظن غير القول بالثلاث. قال في الحلية: وهو الحق، واستشهد له بكلام الحاوي القدسي والمحيط.

أقول: وهو خلاف ما في الكافي مما يقتضي أنهما قول واحد، وعليه مشى في شرح المنية فقال: فعلم بهذا أن المذهب اعتبار غلبة الظن وأنها مقدرة بالثلاث لحصولها به في الغالب وقطعا للوسوسة وأنه من إقامة السبب الظاهر مقام المسبب الذي في الاطلاع على حقيقته عسر كالسفر مقام المشقة اهـ. وهو مقتضى كلام الهداية وغيرها، واقتصر عليه في الإمداد، وهو ظاهر المتون حيث صرحوا بالثلاث - والله أعلم -.

 واللہ اعلم بالصواب

احقرمحمد ابوبکر صدیق  غفراللہ لہ

دارالافتاء ،معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ

۲۶؍رجب المرجب؍۱۴۳۸ھ

۲۴؍اپریل؍۲۰۱۷ء