17 Apr, 2024 | 8 Shawwal, 1445 AH

Question #: 2769

March 17, 2021

اسلام علیکم میرا نکاح 6سال رہا اور اس دوران کوئی رابطہ نہیں تھا۔6سال بعد رخصتی ہوئی اور شوہر نے بیوی کے طور پر قبول نہیں کیا یہ کہتے ہوئے کےاس کے ساتھ زبردستی کی گئی وہ یہ شادی نہیں کرنا چاہتا تھا۔اس نے میاں بیوی والا کوئ تعلق قائم نہیں کیا۔اور ملک سے باہر چلا گیا اور کوئ رابطہ نہیں رکھا۔شادی کے ایک سال بعد میں نے خلع کا کیس کیا ۔اور شوھر نے اس کیس کو فالو نہیں کیا۔کے اسے کوئی پرواہ نہیں۔۔وہ اس رشتے کو نہیں نبھانا چاہتا۔ اس نے عدالت میں کوئی وکیل نہیں کیا اس کیس لیے۔۔ اور اس طرح عدالت نے شوھر کے نہ آنے پر خلع کا فیصلہ 3 مہینے بعد دے دیا۔ کیا اس طرح خلع ہو گئ۔ اور شوہر عدت کے 3 ماہ میں بھی رابطہ نہیں کیا۔ اور مجھے خلع کا سرٹیفیکیٹ دے دیا گیا۔ کیا اس طرح خلع شریعت کے مطابق ہوئی ہے۔ اور کیا اس طرح کے کیس میں عدت بنتی ھے؟؟؟؟ آپ سے درخواست ہے کہ اس سوال کا جواب دیا جائے۔ جزاک اللّہ

Answer #: 2769

الجواب حامدا ومصلیا

اسلام شوہر کی رضامندی کے بغیر  خلع صحیح قرار نہیں  دیتا،  بلکہ اس کومسترد کردیتا ہے۔  اورشوہر کی رضامندی کے بغیر کسی  عدالت کو  یکطرفہ  کاروائی کرکے خلع کا فیصلہ صادر کرنے کا اختیار نہیں دیتا۔  لہذا    اگر صرف  بیوی کے مطالبے پر عدالت نے  یکطرفہ طور پر خلع  کا فیصلہ دیدیا تو شرعاَ ایسا فیصلہ معتبر نہیں ہوگا۔

لہذا آپ نے جو تفصیل ذکر کی ہے،  اس کے مطابق  آپ  دونوں کا نکاح ختم نہیں ہوا، اور آپ پہلے کی طرح میاں بیوی ہیں۔

اس مشکل سے نکلنے کے لیے   اپنے  خاندان کے سربراہ  اور مقامی علماء کرام  سے رجوع کریں تاکہ وہ شوہر کے خاندان سے بات چیت کرکے شوہر  کو شرعی  اصولوں پر گھر بسانے  یا پھر   طلاق دینے پر دباؤ ڈالیں ۔  

بدائع الصنائع - (ج 7 / ص 215)

وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول ؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة ، ولا يستحق العوض بدون القبول بخلاف النوع الأول فإنه إذا قال : خالعتك ولم يذكر العوض ونوى الطلاق فإنه يقع الطلاق عليها ، سواء قبلت أو لم تقبل ؛ لأن ذلك طلاق بغير عوض فلا يفتقر إلى القبول وحضرة السلطان ليست بشرط لجواز الخلع عند عامة العلماء فيجوز عند غير السلطان وروي عن الحسن وابن سيرين أنه لا يجوز إلا عند السلطان ، والصحيح قول العامة لما روي أن عمر وعثمان وعبد الله بن عمر رضي الله عنهم جوزوا الخلع بدون السلطان ، ولأن النكاح جائز عند غير السلطان فكذا الخلع .

المبسوط للسرخسي - (ج 6 / ص 310)

قال: والخلع جائز عند السلطان وغيره لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود وهو بمنزلة الطلاق بعوض وللزوج ولاية إيقاع الطلاق ولها ولاية التزام العوض فلا معنى لاشتراط حضرة السلطان في هذا العقد.

الفتاوى الهندية - (ج 1 / ص 280)

لا يجوز للرجل أن يتزوج زوجة غيره وكذلك المعتدة كذا في السراج الوهاج سواء كانت العدة عن طلاق أو وفاة أو دخول في نكاح فاسد أو شبهة نكاح كذا في البدائع ولو تزوج بمنكوحة الغير وهو لا يعلم أنها منكوحة الغير فوطئها تجب العدة وإن كان يعلم أنها منكوحة الغير لا تجب حتى لا يحرم على الزوج وطؤها كذا في فتاوى قاضي خان

الهداية شرح البداية - (ج 2 / ص 13)

 وإذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به لقوله تعالى { فلا جناح عليهما فيما افتدت به } فإذا فعلا ذلك وقع بالخلع تطليقة بائنة ولزمها المال لقوله عليه الصلاة والسلام الخلع تطليقة بائنة ولأنه يحتمل الطلاق حتى صار من الكنايات والواقع بالكنايات بائن إلا أن ذكر المال أغنى عن النية هنا ولأنها لا تسلم المال إلا لتسلم لها نفسها وذلك بالبينونة وإن كان النشوز من قبله يكره له أن يأخذ منها عوضا لقوله تعالى { وإن أردتم استبدال زوج مكان زوج } إلى أن قال { فلا تأخذوا منه شيئا } ولأنه أوحشها بالاستبدال فلا يزيد في وحشتها بأخذ المال وإن كان النشوز منها كرهنا له أن يأخذ منها أكثر مما أعطاها.

والله اعلم بالصواب

احقرمحمد ابوبکر صدیق غَفَرَاللّٰہُ لَہٗ

دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ