29 Mar, 2024 | 19 Ramadan, 1445 AH

Question #: 2702

November 26, 2020

Mery shohar nay 23 September ko mujhy Pehli talaq di or ic k baad haiz anay say phly phone pay calls ki jo my nay atend nai ki to phir message kia kh tum apna or apni beti ka مستقبل سوچتے ہوئے فیصلہ کرو, agr tmhara jawab han my howa to hi my dubara rabta karo ga, my nay kisi kism ka koi reply nai kia or 23 October ko dosri or 23 November ko 3rd divorce day di 1). Ab masla عدت ka h mujhy phli talaq say ab tak do haiz a chukay hn آیا ab 3rd haiz k bad myri عدت khatm ho jay ge? Ya phir jo rabtay ki کوشش ki myray شوہر osay رجوع سمجھا جائے گا? Myri عدت kab khatm ho ge? 2). My apni والدہ k ghar rhti hn or myray بزرگ dada k siwa ghar my koi mard nai jis waja say my دوران عدت ghar k or بچوں کے کاموں k liye apni ذاتی سواری my دادا k sath ghar say bahir jati rahi hn آیا myra ye عمل جائز h?

Answer #: 2702

میرے شوہر نے 23 ستمبر کو مجھے پہلی طلاق دی اور اس کے بعد حیض آنے سے پہلے فون پہ کالز کیں جو میں نے اٹینڈ نہیں کیں تو پِھر میسیج کیا کہ تم اپنا اور اپنی بیٹی کا مستقبل سوچتے ہوئے فیصلہ کرو ، اگر تمہارا جواب ہاں میں ہوا تو ہی مَیں دوبارہ رابطہ کروں گا ، میں نے کسی قسم کا کوئی جواب نہیں دیااور پھر اس نے  23 اکتوبر کو دوسری اور 23 نومبر کو تیسری طلاق دے دی۔

1 ) . اب مسئلہ عدت کا ہے مجھے پہلی طلاق سے اب تک دو حیض آ چکے ہیں آیا اب تیسرے حیض کے بعد میری عدت ختم ہو جائے گی ؟ یا پِھر جو رابطے کی کوشش کی میرے شوہر نے اسے رجوع سمجھا جائے گا ؟ میری عدت کب ختم ہو گی ؟

2 ) . مَیں  اپنی والدہ کے گھر رہتی ہوں اور میرے بزرگ دادا کے سوا گھر میں  کوئی مرد نہیں  جس وجہ سے مَیں  دوران عدت گھر کے اور بچوں کے کاموں کے لیے اپنی ذاتی سواری میں  دادا کے ساتھ گھر سے باہر جاتی رہی ہوں آیا میرا یہ عمل جائز ہے ؟

میرے شوہر نے مجھے 3 طلاقیں دے دی ہیں اور تینوں دفعہ پیپرز میں ہماری ڈیڑھ سال کی بیٹی کا کوئی ذکر نہیں کیا اور گزشتہ  چھ ماہ  سے نا ہی اس سےرابطے کی کوئی کوشش کی ہے ، شادی کے  دوران بھی بےروزگار ہونے کی وجہ سے نا مجھ پر اور نہ ہی  میری بیٹی پر  کسی قسم کے اخراجات کیے ہیں۔

 3 ) . کیا مَیں بچی کی کفالت کا کیس کر سکتی ہوں ؟

 4 ) . اگر وہ خود سے بچی کا نان ونفقہ   نا دیں تو کیا کیس کر کے لیا جا سکتا ہے ؟ یا نان و نفقہ نا ملنے کی صورت میں کیس نا کرنا میرے لیے بہتر ہے ؟ میرے والد صاحبِ استطاعت ہیں وہ میرا اور میری بیٹی کا خرچ کر سکتے ہوں اور مَیں ڈاکٹر ہوں مگر کوئی جاب نہیں کرتی . گھر میں واحد کمانے والے میرے والد ہی ہیں ۔

الجواب حامدا ومصلیا

1-   ’’تم اپنا اور اپنی بیٹی کا مستقبل سوچتے ہوئے فیصلہ کرو ، اگر تمہارا جواب ہاں میں ہوا تو ہی مَیں دوبارہ رابطہ کروں گا‘‘ ان الفاظ سے رجوع ثابت نہیں ہوا، لہذا پہلی طلاق سے ہی عدت شمار ہوگی،  اب تیسرے حیض کے بعد آپ کی عدت ختم ہو جائے گی۔

2- عدت کے دوران گھر سے باہر جانا جائز نہیں تھا، آپ اس پر توبہ و استغفار کریں، تاہم اس کی وجہ سے  عدت  کے شمار میں کوئی فرق نہیں پڑے گا، وہ تیسرے حیض سے پاک ہونے پر ختم ہوجائے گی۔

3- اوربچی  کے خرچ کی اصل ذمّہ داری والد پر عائدہوتی ہے ، وہ  اپنی استطاعت کے مطابق اس کا نان و نفقہ بر داشت کرے گا ۔

4-  آپ بچی کے نان و نفقہ کا کیس کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں، تاہم جب آپ کے پاس اس کے خرچ اٹھانے کی استطاعت  ہے تو کیس نہ کریں، کیونکہ عدالت  میں  انصاف سے زیادہ دھکے   ملتے ہیں ، اور خرچ سے زیادہ،  کیس پر خرچہ آجائے گا۔ ( یہ ایک مشورہ ہے)

والله اعلم بالصواب

احقرمحمد ابوبکر صدیق غَفَرَاللّٰہُ لَہٗ

دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ

۲۱ ؍ جمادی الأول ؍ ۱۴۴۲ھ

۶ ؍ جنوری ؍ ۲۰۲۱ء