Question #: 2725
December 29, 2020
Answer #: 2725
السلام علیکم! مفتی صاحب آپکا جواب سوال نمبر 2420 ( 14اپریل 2019 ) زکوۃ اور عشركے بارے میں جو جواب ہے ، وہ سمجھ نہیں آیا ، " کہ اگر کوئی پلاٹ بیچنے یا تجارت کی نیت سے نہیں خرید کر رکھا ہوا تو زکاۃ دینے کی ضرورت نا ہے؟ اگر ایسا رہا تو لوگ دعوت جمع کرنے کی نیت سے صرف پلاٹ خرید خرید کے رکھیں گے اور سمجھیں گے بیچنے کی نیت نہیں ہے صرف جمع کرنا ہے، تو سونا اور چاندی پر زکاۃ لگائیں گے اس لیے پلاٹ خرید کر رکھو، کروڑوں ڈالر کے صرف بیچنے کی نیت نا کروں اولادوں کے لیے چھوڑ دوں تو زکاۃ نہیں لگے گی؟
الجواب حامدا ومصلیا
جو پلاٹ بیچنے کی نیت سے نہ خریدے ہوں، بلکہ اپنی اولادوں کو دینے کے لیے خریدے ہوں تو ان پلاٹوں پر زکوۃ نہیں ہے۔
اور آپ نے جس مسئلہ کا حوالہ دیا ہے تو ان دونوں مسئلوں میں فرق کی وجہ یہ ہے کہ پلاٹ وغیرہ آگے بیچنے کی نیت سے جب خریدے تو وہ شرعا مال تجارت بن گیا ، اور مال تجارت پر زکوۃ واجب ہے، اور جب اس نے اپنی اولاد وغیرہ کو دینے کی نیت سے خریدے تو یہ پلاٹ مال تجارت نہیں بنے گا اور زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔
اور اگر کوئی صاحب استطاعت ہونے کے باوجود صرف زکاۃ سے بچنے کے لیے غیر تجارتی نیت سے جائیداد خریدتا ہے تو بہرحال اس پر زکاۃ تو نہیں مگر یہ عمل پسندیدہ اور مناسب نہیں ہے۔
والله اعلم بالصواب
احقرمحمد ابوبکر صدیق غَفَرَاللّٰہُ لَہٗ
دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ
18 جمادى الثانی، 1442ھ
01 فروری، 2021ء