Question #: 1721
September 16, 2016
Answer #: 1721
سوال کا خلاصہ :
میں ایک کمپنی میں ملازمت کرتا ہوں، میری عمر 27 سال ہے، سات سال پہلے منگنی ہوئی تھی، پیسے نہ ہونے کی وجہ سے شادی نہیں ہورہی، دوست و احباب سے قرض مانگا ہے، انہوں نے مدد کرنے سے انکار کردیا، اب ایک دوست کہتے ہیں کہ میں آپ کو زکوۃ کے پیسے دیتا ہوں، توکیا گھربنانے کے لیے مجھے یہ پیسے لینا جائز ہے یا نہیں؟
میری شادی میں دو بڑی رکاوٹیں ہیں:
ایک سونا بنانا، اوردوسرا کمرہ اور بیت الخلا بنانا ہے، جو ہم سات سالوں میں نہیں بناسکے کیونکہ پیسے نہیں ہیں۔ تو کیا زکوۃ کے پیسوں سے یہ کام کراسکتا ہوں، اور میں اس کے کتنا زکوۃ لے سکتا ہوں، وہ مجھے کہتے ہیں کہ پہلے یہ کسی صحیح عالم سے پوچھ لو پھر میں آپ کو دونگا۔ براہ کرم رہنمائی فرمائی جائے۔ جزاکم اللہ۔
الجواب حامدا ومصلیا
صورت مسئولہ میں اگر آپ مستحق زکوٰۃ ہیں تو آپ کا دوست آپ کو زکوٰۃ کی رقم گھر کی تعمیر کےلیےدے سکتاہے۔جس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ زکوٰۃ کی رقم سے آپ کے لیے گھر تعمیر کرائے اور اس کے بعد تعمیر شدہ گھر آپ کو مالک بناکر آپ کے قبضہ میں دے دے۔اس کی عملی صورت یہ ہے کہ وہ آپ کو گھر بنانے کاوکیل بنادے، آپ اس کی رقم سے گھربنائیں اور جب گھر بن جائے تو آپ اس کوکہہ دیں کہ گھر بن گیا ہے، اس کے بعد وہ آپ کے حوالے کردے۔
یا وہ زکوٰۃ کی رقم تھوڑی تھوڑی کرکے آپ کو دیتے رہیں اور آپ اس سے مکان تعمیرکرتے رہیں۔ اس صورت میں بیک وقت نصاب (ساڑھے باون تولے چاندی کی مالیت)کے بقدر زکوٰۃ کی رقم نہ دے بلکہ اس سے کم کم دیتا رہے، اور جب وہ خرچ ہوجائیں تو دوسری رقم دے۔ یاآپ کسی سے مکان کی تعمیر کے لیے قرض لے لیں، اور پھر قرض کی ادائیگی کے لیے آپ زکوٰۃ کی رقم لے لین اور فوری قرض ادا کردیں، اس صورت میں زکوٰۃ کی رقم تھوڑی تھوڑی وصول کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہوگی۔
یہ بھی واضح رہے کہ مستحق زکوٰۃ وہ شخص ہے کہ جس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی ،یا اس کی قیمت کے بقدر نقدی،یا ضرورت سے زائد سامان موجود نہ ہو۔
الدر المختار - (2 / 339)
مصرف الزكاة والعشر ... ( هو فقير وهو من له أدنى شيء ) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير تام مستغرق في الحاجة ( ومسكين من شيء له ).
الدر المختار - (2 / 344)
ويشترط أن يكون الصرف ( تمليكا ) لا إباحة كما مر.
وفی الهداية - (1 / 114)
ويكره أن يدفع إلى واحد مائتي درهم فصاعدا وإن دفع جاز.
وفی الفتاوى الهندية - (1 / 188)
ويكره أن يدفع إلى رجل مائتي درهم فصاعدا وإن دفعه جاز.
وکذا فی خیر :3/470، فی فتاوی مفتی محمود: 3/360)
واللہ اعلم بالصواب
احقرمحمد ابوبکر صدیق غفراللہ لہ
دارالافتاء ،معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ
۲۳؍ذی الحجہ؍۱۴۳۷ھ
۲۶؍ستمبر ؍۲۰۱۶ء