19 Apr, 2024 | 10 Shawwal, 1445 AH

Question #: 2722

December 27, 2020

اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مغرب نماز کی آخری دو نفیل نماز پڑھنے کے بجائے اگر اوابین کی نیت کر کے پڑھ لیں تو کیا یہ جائز ہوگا ؟ جزاکم اللہ خیرا

Answer #: 2722

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!  مغرب کی ۲ رکعت نفل نماز پڑھنے کے بجائے جب اوابین کی۲ رکعت کی نیت کر کے پڑھ لیں تو کیا یہ ٹھیک ہے؟ یہ اس وجہ سے کہ دونوں نوافل ہیں۔

الجواب حامدا ومصلیا

عام طور پر مغرب کے فرض اور سنتوں کے بعد جو نوافل پڑھے جاتے ہیں، انہیں ’’صلاۃ الاوابین‘‘ کہتے ہیں، ان کی کم از کم تعداد  چھ اور زیادہ سے زیادہ بیس ہے۔ یہ نماز مستحب ہے۔

 مفتی بہ قول کے مطابق یہ چھ  رکعات مغرب کے بعد کی دو رکعات سنتِ مؤکدہ  کے علاوہ ہیں۔ البتہ بعض فقہاء  فرماتے ہیں کہ سنتِ مؤکدہ کو ملا کر چھ رکعات ادا کرنے سے بھی یہ فضیلت حاصل ہوجائے گی۔

اوابین کی نماز کا طریقہ وہی طریقہ ہے جو عام نوافل کا ہے، اور اوابین کی چھ رکعات ، دو ،دو رکعات کرکے پڑھنا زیادہ بہتر ہے۔

جناب رسول اللہﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ: ’’جو شخص نماز مغرب کے بعد چھ رکعات (اوابین کی نماز) پڑھے گا، اور ان کے درمیان کوئی غلط بات زبان سے نہ نکالے گا تو یہ چھ رکعات ثواب میں اس کے لیے بارہ سال کی عبادت کے برابر قرار پائیں گے۔

تاہم صحیح احادیث میں رسول اللہ ﷺ نے چاشت کی نماز کو اوابین کی نماز فرمایا ہے، بلکہ ایک حدیث میں سورج گرم ہوجانے کے بعد  چاشت پڑھنے والوں کی نماز کو ’’صلاۃ الاوابین‘‘  فرمایا ہے، ارشاد ہے: ’’صلاة الأوابین حین ترمض الفصال‘‘. (صحيح مسلم) یعنی اللہ کی طرف رجوع کرنے والوں کی نماز اس وقت ہے جب سورج کی تمازت سے اونٹ کے بچے کے پیر جلنے لگیں۔

 چناں چہ فقہاءِ کرام فرماتے ہیں کہ چاشت کی نماز کا افضل وقت، اس کے مکمل وقت کا آخری چوتھائی ہے، یعنی سورج طلوع ہو کر جب ایک نیزہ بلند ہوجائے تو چاشت کا وقت شروع ہوجاتاہے، اور زوال تک چاشت کا وقت رہتاہے، اس مکمل وقت کو چار حصوں میں تقسیم کیا جائے تو آخری چوتھائی وقت جس میں سورج کی تمازت بڑھ جاتی ہے، اس وقت اوابین کی نماز کا وقت ہے، اور اس وقت میں چاشت کی نماز کی فضیلت زیادہ ہے۔اور چاشت کی نماز کم سے کم دو رکعت ہے، بہتر چار رکعات ہیں، رسول اللہ ﷺ سے آٹھ رکعات تک ادا کرنا منقول ہے۔

سنن الترمذي (2 / 299)

"عن أبي سلمة، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من صلى بعد المغرب ست ركعات لم يتكلم فيما بينهن بسوء عدلن له بعبادة ثنتي عشرة سنةً»".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (2 / 13)

"(وست بعد المغرب) ليكتب من الأوابين (بتسليمة) أو ثنتين أو ثلاث والأول أدوم وأشق وهل تحسب المؤكدة من المستحب ويؤدى الكل بتسليمة واحدة؟ اختار الكمال: نعم. (قوله: بتسليمة أو ثنتين أو ثلاث) جزم بالأول في الدرر، وبالثاني في الغزنوية، وبالثالث في التجنيس كما في الإمداد، لكن الذي في الغزنوية مثل ما في التجنيس، وكذا في شرح درر البحار. وأفاد الخير الرملي في وجه ذلك  أنها لما زادت عن الأربع وكان جمعها بتسليمة واحدة خلاف الأفضل، لما تقرر أن الأفضل رباع عند أبي حنيفة؛ ولو سلم على رأس الأربع لزم أن يسلم في الشفع الثالث على رأس الركعتين، فيكون فيه مخالفة من هذه الحيثية، فكان المستحب فيه ثلاث تسليمات ليكون على نسق واحد. قال: هذا ما ظهر لي، ولم أره لغيري". 

والله اعلم بالصواب

احقرمحمد ابوبکر صدیق  غَفَرَاللّٰہُ لَہٗ

دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ