20 Apr, 2024 | 11 Shawwal, 1445 AH

Question #: 2364

February 01, 2019

میری ایک دوست نے پوچھا ہے کے قضا نمازوں کا کوئی حکم نہیں ملتا کہیں سے تو لوگ کیوں پڑھتے ہیں؟اس دوست نے اپنے ابو اور ایک دوست جو الھدا جاتی ہے انسے پوچھا تھاقضا نماز کا۔ تو میرے پاس کو جواب نہیں تھا کیونکہ مجھے خود کوئی وجہ نہیں پتا بس پڑھنے کا سنا تھا اسلئیے پڑھتی ہوں-

Answer #: 2364

میری ایک دوست نے پوچھا ہے کہ قضا نمازوں کا کوئی حکم نہیں ملتا کہیں سے، تو لوگ کیوں پڑھتے ہیں؟ اس دوست نے اپنے ابو اور ایک دوست سے  جو   الھدیٰ  جاتی ہے ان سے پوچھا تھاقضا نماز کا۔ تو میرے پاس کوئی  جواب نہیں تھا، کیونکہ مجھے خود کوئی وجہ نہیں پتا۔ بس پڑھنے کا سنا تھا اس لیے پڑھتی ہوں۔

الجواب حامدا ومصلیا

قرآن کریم کےپانچویں پارے میں، سورۃ نساء میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

"إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا" (النساء: 103)

ترجمہ: اللہ تعالی نے اہل ایمان پر نماز کو مقررہ اوقات میں فرض کیا ہے۔

 اس لیے اپنے وقت پر نماز کو ادا کرنا ضروری ہے، ہاں اگر کبھی کبھار کسی عذر، بیماری یا کسی  وجہ سے نماز وقت میں ادا نہ کر سکے تو شریعت نے اس عبادت کی اہمیت کے پیش نظر اسے بعد میں ادا کرنے کا سختی سے حکم دیا ہے۔ آج کل سہولت  پسندی ، اور دین سے غفلت کا زمانہ ہے، اول تو بہت سے مسلمان نماز ادا ہی نہیں کرتے، اگر کبھی پڑھ بھی لیں تو شرائط و آداب کا بالکل خیال نہیں کرتے اور خشوع خضوع سے خالی نماز محض اٹھک بیٹھک کا نمونہ پیش کرتی ہے اور بس۔

چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان  أہم العبادات )نماز(کے چھوٹ جانے پر نادم ہوتے، توبہ تائب ہوتے، اور شریعت کے حکم کے مطابق اپنی قضاء شدہ نمازوں کو جلد ادا کرتے۔ افسوس صد افسوس کہ  کچھ لوگوں  نےاپنی کم علمی اور کوتاہ فہمی سے اس معاملے کو بھی اپنی اوٹ پٹانگ خواہشات کے حوالے کردیا۔ چنانچہ افراط تفریط کا شکار ہو کر رہ گئے۔ چنانچہ ان لوگوں  نے یہ نظریہ بنالیا کہ قضاء شدہ نمازوں کو ادا کرنے کی ضرورت نہیں  ہے، صرف  توبہ ہی سے کام چلا لیا جائے۔

قرآن وحدیث سے یہ بات ثابت ہے  کہ قضاء شدہ نمازیں  صرف توبہ سے ذمہ سے ساقط  نہیں ہوتیں، بلکہ  توبہ و استغفار کے ساتھ ساتھ قضاء شدہ نمازوں کو پڑھنا بھی  ضروری ہے۔ اس پر  چند دلائل پیش خدمت ہیں ۔

احادیث مبارکہ :

  1. حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مروی ہے :

مَنْ نَسِيَ صَلاَةً فَلْيُصَلِّ إِذَا ذَكَرَهَا، لاَ كَفَّارَةَ لَهَا إِلَّا ذَلِكَ.        (صحيح البخاري 1/ 123 ، باب من نسي صلاة)

ترجمہ : جو شخص نماز کو) اپنے وقت پر پڑھنا (بھول جائے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ جب بھی اس کو یاد آئے )کہ اس نے فلاں نماز نہیں پڑھی (تو اسے چاہیے کہ وہ نماز پڑھے،  اس کے علاوہ اس کا کوئی کفارہ نہیں ۔

  1. جبکہ صحیح مسلم میں کچھ الفاظ کے اختلاف کے ساتھ یہ حدیث موجود ہے :

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ نَسِيَ صَلَاةً أَوْ نَامَ عَنْهَا فَكَفَّارَتُهَا أَنْ يُصَلِّيَهَا إِذَا ذَكَرَهَا.  (صحیح مسلم:ج 1ص 27)

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص نماز پڑھنا بھول جائے یا سوتا رہ جائے تو اس کا کفارہ یہی ہے کہ جب یاد آجائے تو نماز پڑھ لے۔

  1. امام نسائی رحمہ اللہ اپنی سنن میں ایک روایت لائے ہیں : 

سئل سول الله صلی الله علیه وسلم عن الرجل یرقد عن الصلوٰة او یغفل عنها قال : کفارتھا ان یصلیھا اذا ذکرھا.

(سنن نسائی ج1 ص 100،  باب فی من نام عن صلوة(

ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جو نماز کے وقت میں سو جائے یا غفلت کی وجہ سے چھوڑ دے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس کا کفارہ یہی ہے کہ جب بھی اسے اپنی قضاء شدہ نماز یاد آئے تو وہ اسے پڑھ لے ۔

اقوالِ صحابہ :

  1. امام مالک رحمہ اللہ نے اپنی کتاب موطا امام مالک میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ  کا فرمان نقل فرماتے ہیں :

عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ يَقُولُ مَنْ نَسِيَ صَلَاةً فَلَمْ يَذْكُرْهَا إِلَّا وَهُوَ مَعَ الْإِمَامِ فَإِذَا سَلَّمَ الْإِمَامُ فَلْيُصَلِّ الصَّلَاةَ الَّتِي نَسِيَ ثُمَّ لِيُصَلِّ بَعْدَهَا الْأُخْرَى.                                        (موطا امام مالک: ۱۵۵)

ترجمہ: حضرت نافعؒ سے روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص نماز پڑھنا بھول جائے، پھر امام کے ساتھ نماز پڑھتے وقت اس کو اپنی چھوڑی ہوئی قضاء نماز یاد آجائے تو جب امام سلام پھیرے تو اس کو چاہئے کہ پہلے وہ بھولی ہوئی قضاء نماز پڑھے پھر اس کے بعد دوسری نماز پڑھے۔

  1. امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی جامع میں حضرت ابو عبیدہ بن عبداللہ بن مسعود کی ایک روایت نقل کی ہے ، چنانچہ فرماتے ہیں:

عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ إِنَّ الْمُشْرِكِينَ شَغَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَرْبَعِ صَلَوَاتٍ يَوْمَ الْخَنْدَقِ حَتَّى ذَهَبَ مِنْ اللَّيْلِ مَا شَاءَ اللَّهُ فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعَصْرَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعِشَاءَ.  (جامع ترمذی: ص43)

ترجمہ: حضرت ابو عبیدہ بن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ سے روایت ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ  نے فرمایا کہ غزوۂ خندق والے  دن مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو چار نمازیں پڑھنے سے رو ک دیا تھا یہاں تک رات کا کچھ حصہ گذر گیا، جتنا اللہ تعالیٰ نے چاہا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا تو انہوں نے اذان دی اور پھر اقامت کہی، پس ظہر کی نماز پڑھی، پھر اقامت کہی تو عصر کی نماز پڑھی، پھر اقامت کہی تو مغرب کی نماز پڑھی، پھر اقامت کہی اور عشاء کی نماز پڑھی۔

اقوال فقہاء:

  1. امام بخاری حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کا قول نقل کرتے ہیں :

من ترک صلاة واحدة عشرین سنة لم یعد الا تلک الصلوٰة الواحدة.          (صحیح بخاری: ج 1 ص 84)

ترجمہ: جس شخص نے ایک نماز چھوڑ دی تو )اگرچہ(بیس سال بھی گزر جائیں تو وہ شخص اسی اپنی قضاء شدہ  نماز کو ادا کرے ۔

  1. امام ابن نجیم حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

فالاصل فیہ ان کل صلوٰةفاتت عن الوقت بعد ثبوت وجوبها فیه فانه یلزم قضاؤھا، سواء ترکھا عمدا او سھوا او بسبب نوم وسواء کانت الفوائت قلیلة او کثیرة.                     (بحر الرائق ج 2 ص 141)

ترجمہ : اصول یہ ہے کہ ہر وہ نماز جو وقت میں واجب ہونے کے بعد رہ گئی ہو ، اس کی قضاء لازم ہے خواہ انسان نے وہ نماز جان بوجھ کر چھوڑی ہو یا بھول کر ، یا نیند کی وجہ سے رہ گئی ہو ۔ چھوٹ جانے والی نمازیں زیادہ ہوں یا کم ہوں ۔ (بہر حال قضا لازم ہے)

  1. مشہور شارحِ مسلم علامہ نووی شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

فِيهِ وُجُوب قَضَاء الْفَرِيضَة الْفَائِتَة سَوَاء تَرَكَهَا بِعُذْرٍ كَنَوْمٍ وَنِسْيَان أَوْ بِغَيْرِ عُذْر.                                     (شرح مسلم للنووی:ج1ص231 (

ترجمہ: جس شخص کی نماز فوت ہوجائے اس کی قضاء اس پر ضروری ہے خواہ وہ نماز کسی عذر کی وجہ سے رہ گئی ہو جیسے نیند، اور بھول یا بغیر عذر کے چھوٹ گئی ہو۔

  1. امام جصاص رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وهذا الذي ورد به الأثر من إيجاب قضاء الصلاة المنسية عند الذكر لاخلاف بين الفقهاء فيه، وقد روي عن بعض السلف فيه قول شاذ ليس العمل عليه.     (احکام القرآن للجصاص:ج 3ص288)

ترجمہ: یہ جو اثر بھولے سے قضاء نماز کے ادا کرنے پر ہے،  یاد آنے پر اس کی قضاء میں فقہاء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے اور جو بعض سلف سے قول مروی ہے وہ شاذ ہے اس پر عمل نہیں۔

تمام علماء امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ فوت شدہ نمازوں کی قضاء کرنا ضروری ہے۔

والله اعلم بالصواب

احقرمحمد ابوبکر صدیق  غفراللہ لہ

دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ

‏۰۸ ، ‏ جمادى الثانی‏، ۱۴۴۰ھ

‏13‏ ، فروری‏، 2019ء