25 Apr, 2024 | 16 Shawwal, 1445 AH

Question #: 2224

March 19, 2018

1=Asalam o aleikum Mufti sahb may adab k sat guzarish karta hoo k jo shakhs nimaz nahi parhta us k sat utna batna taluqat rakna kana kana waghaira jaiz hay ya nahi? 2=nind k bad istinja karna zaroori hay pashab k baghair?

Answer #: 2224

السلام علیکم !مفتی صاحب میں ادب کےساتھ گزارش کرتا ہوں کہ

  1. جو شخص نماز نہیں پڑھتا اس کے ساتھ اٹھنا ،بیٹھنا ،تعلق رکھنا ،کھانا کھانا وٖغیرہ جائز ہے یا نہیں ؟
  2. نیند کے بعد استنجا ءکرنا پیشاب کے بغیر ضروری ہے ۔؟

الجوا ب حامدا ومصلیا

  1. جان بوجھ کر محض اپنی سستی کی وجہ سے نماز نہ پڑھنا بہت بڑا گناہ ہے۔ قرآن و حدیث میں ایسے شخص کے متعلق بہت سخت وعیدیں آئی ہیں تاہم ایسا شخص ایمان سے نہیں نکلتا بلکہ مؤمن ہوتا ہے گو کامل ایمان نہ ہو لہٰذا یہ گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد ضرور جنت میں جائے گا اور چونکہ یہ مومن ہے اس لئے دوسرے مسلمانوں پر اس کے حقوق (عیادت، جنازہ وغیرہ) ادا کرنا بھی لازم ہے اور عام حالات میں اس کے ساتھ تعلقات رکھنا، اس کے گھر کا کھانا کھانا جب کہ اس میں کوئی دینی نقصان نہ ہو جائز ہے، البتہ تادیباً اس امید سے اس سے قطع تعلقی کرنا کہ شاید اس طرح وہ نماز اور دین کا پابند ہوجائے جائز ہے بلکہ اگر اس طریقہ سے اس کے نماز اور دین کے پابند ہونے کا غالب گمان ہوتو اس وقت یہ قطع تعلقی ضروری ہوگی۔ اسی طرح اگر اس سے تعلقات رکھنے میں غالب گمان یہ ہو کہ اس طرح یہ نماز اور دین کا پابند ہوجائے گا تو پھر تعلقات رکھنا مناسب ہے۔
  2.  جائز ہے، البتہ اس کو لازمی سمجھنا  بدعت ہے۔

لمافی تکملة فتح الملھم - (۳۵۶/۵): وحاصل ذلک ان الھجران انما یحرم اذا کان من جھۃ غضب نفسانی اما اذا کان علی وجه التغلیظ علی المعصیة والفسق اوعلی وجه التادیب کما وقع مع کعب بن مالک وصاحبیه او کما وقع لرسول اﷲﷺ مع ازواجہ او لعائشة مع ابن الزبیر رضی اللہ عنهم فانه لیس من الھجران الممنوع.

وفی الھندیة - (۵۰/۱):ولایقتل تارک الصلوۃ عامدا غیر منکر وجوبھا بل یحبس حتی یحدث توبة.

وفی الشامیة - (۳۸۸/۶): (قوله وجاز عیادۃ فاسق) وھذا غیر حکم المخالطة ذکر صاحب الملتقط یکرہ للمشهور المقتدی به الاختلاط برجل من اھل الباطل والشر الا بقدر الضرورة لانه یعظم امرہ.

الدر المختار مع رد المحتار -  (1/ 335)

فلا يسن من ريح وحصاة ونوم وفصد.

(قوله: فلا يسن من ريح) لأن عينها طاهرة، وإنما نقضت لانبعاثها عن موضع النجاسة اهـ ح؛ ولأن بخروج الريح لا يكون على السبيل شيء فلا يسن منه بل هو بدعة كما في المجتبى بحر.

واللہ اعلم بالصواب

      احقرمحمد ابوبکر صدیق  غفراللہ لہ

  دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ