20 Apr, 2024 | 11 Shawwal, 1445 AH

Question #: 2214

March 12, 2018

Assalamu alaikum. My question is: Should imam make dua out loud after every fard salah? or silently and individually? what is Sunnah? scholars who follow Hanfi fiqh make dua out loud after every fard salah. Please eplain this masala.. wassalam

Answer #: 2214

الجواب حامدا و مصلیا

صورت ِ مسئولہ کیلئے چند مقدمات سمجھنا ضروری ہیں جو کہ ذیل میں تفصیل کے ساتھ نمبر وار درج کیے جاتے ہیں :۔

  1. حضور اکرم ﷺ سے فرض نماز کے بعد دعا کرنا قولاً و عملاً دونوں طرح ثابت ہے ۔
  1. امام ابو عیسیٰ الترمزی ؒنے حضرت ثوبان ؓکی یہ روایت  نقل کی ہے :کان رسول اللہ ﷺ اذا  اراد  ان ینصرف من صلاتہ استغر ثلاث مراتٍ ثم قال و انت السلام و منک السلام تبارکت یا ذالجلال والاکرام۔ (ترمذی علی صدر معارف السنن ج۳ ؍ص۱۲۱ ،  باب ما یقول اذا لم )

  2. امام ابن ابی شیبہ ؒ نقل فرماتے ہیں: حدثنی رجل من الانصار قال سمعتُ رسول اللہ ﷺ یقول فی دبر الصلوٰۃ اللّٰھم اغفرلی وتب علیّ انک انت التواب الرّحیم مائۃ مرّۃ۔
  3. عن اُمِّ سلمۃ ان النبی ﷺ کان یقول اذا صلی الصبح حین یسلم اللّٰھم انی أسئلک علماً نافعاً و رزقاً طیباً و عملاً متقبلاً۔                        (رواھما مصنف  ابی شیبہ ج ۷ ؍ص۳۹ ، کتاب الدعاء)
  4. علامہ ابن السنیؒ روایت کرتے ہیں: عن انس ؓ ان النبی ﷺ قال ما من  عبدٍ یبسط کفیہ  فی دبر کل صلوٰۃ یقول اللّٰھم الٰھی و الٰہُ  ابراھیم و اسحاق و یعقوب۔۔۔ الا کان حقاً علی اللہ ان لا یرد یدیہ حائبتین۔    (عمل الیوم و اللیلۃ بحوالہ معارف السنن: ج۳، ص۱۲۳ ،  باب ما یقول اذا سلم)

ان کے علاوہ بھی بہت ساری روایات کتب حدیث میں مذکور ہیں جو دعا بعد الفرائض کو ثابت کرتی ہیں۔

اس لیے علامہ محمد یوسف البنوری ؒ فرماتے ہیں : الدعا للامام والماموم والمنفرد مستحب عقب کل صلوٰت بلا خلاف ویقول ویستحب ان یقبل علی الناس فیدعو۔  (معارف السنن ج۳ ؍ص۱۲۳ ، باب ما یقول اذا سلم)

  1. اسی طرح رسول اللہ ﷺ سے بہئیتِ اجتماعیہ دعا کرنا صحیح روایات سے ثابت ہے ۔علامہ محمد یوسف بنوری ؒ فرماتے ہیں :۔فھذہ وما شاکلھا من الروایات فی الباب تکفی حبۃ لما اعتادہ الناس فی البلاد من الدعوات الاجتماعیۃ دبر الصلوٰۃ ولذا ذکرۃ فقھاءنا ایضاً کما فی نورالایضاح وشرحہٖ مراقی الفلاح (معارف السنن ج ۳ ؍۱۲۳ ، باب ما یقول اذا سلم)
  2. ذکر اور دعا کرنے کے بارے میں دونوں طرح کی روایات ملتی ہیں بعض روایات سے خفیہ طور پر ذکر اور دعا کرنا ثابت ہے ، جبکہ بعض روایات سے جہر کے ساتھ(بآوازِ بلند) دعا کرنا ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کرامرضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی اتباع میں فقہاء و صلحا ء اور علماءِ امت بآوازِ بلند دعا کرتے آئے ہیں ۔

چند دلائل بطور نمونہ پیش کیے جاتے ہیں :۔

  1. علامہ بنو۱ری ؒ نے کنزالعمال کے حوالے سے ایک روایت نقل کی ہے : لا یجتمع ملاء فید عوا بعضھم ویئومن بعضھم الا اجابھم اللہ ۔(معارف السنن ج۳؍۱۲۲ ، باب ما یقول اژا سلم)

اس روایت سے بآواز بلند دعا کرنا صاف ظاہر ہوتا ہے ، اس لیے کہ دعا پر آمین تب کہی جاتی ہے جب دعا کرنے والا بلند آواز سے دعا کرے اور دوسرا شخص اس کر سُنے ۔

  1. علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ نےآنحضرت ﷺکی یہ روایت نقل کی ہے: کان رسول اللہ ﷺ اذا سلم من صلٰوتہ یقول بصوتہ الأعلی: لآ الٰہ الّا اللہ وحدہ لا شریک لہٗ الخ ۔ (فتح الملھم ج ۲؍۱۷۱ باب الذکر بعدالصلوۃ)
  2. صحیح المسلم میں ہے ؛ ان ابن عباسؓ اخیرہ ان رفع الصوت بالذکر حین لیصرف الناس من المکتوبۃ کان علٰی عھد النبی ﷺ وانہ قال ؛قال ابن عباسؓ کنت اعلم اذا انصرفوا بذٰلک اذا سمعتہٗ۔  (صحیح المسلم علٰی صدر فتح الملھم  ج ۲؍۱۷۱ باب الذکر الصّلوٰۃ)

یہ دونوں روایات بھی بلند آواز سے ذکر اور دعا کرنے کو ثابت کرتی ہیں اس لیے کہ ابن عباسںؓ اس وقت حدیث السن تھے انہوں نے نماز سے فراغت کے بعد یہ ذکر یا  تو آخر صف میں سنا ہو گا یا مسجد سے باہر ۔

اس لیے علامہ شبیر احمد عثمانیؒ اس روایت کے تحت لکھتے ہیں : واستدل بحدیث الباب بعض السلف علٰی استحباب رفع الصوت بالتکبیر والذکر ۔( فتح الملھم ج ۲؍۱۷۱باب الذکر بعدا لصلٰوۃ)

اسی طرح علامہ نوویؒ نے بھی اس حدیث کے تحت لکھا ہے : ھٰذاالحدیث دلیل لما قالہ بعض السلف انہ یستحب رفع الصوت بالذکر عقیب المکتوبۃ ۔(مجموعہ رسائل لکھنوی جلد ۳ ؍۴۹۰   ۔  سباحتہ الفکر فی الجھر بالذکر ؍۳۴  ، الباب الاول فی حکم الجھر )

  1. علامہ لکھنوی ؒ نے عبداللہ بن عباسؓ کی روایت نقل کی ہے : قال :قال رسول اللہ ﷺ:   أذکرو اللہ  ذکراً حتٰی یقول المنافقون،  إنکم مراؤون ۔ (مجمع الزوائد ج ۴؍۷۶ ۔ سباحتہ الفکر ۲۹ الباب الاول فی حکم الجہر )

  بلند آواز سے ذکر کرنے پر اس روایت اور دوسری روایات سے استدلال کرتے ہوئے علامہ سیوطی نے لکھا ہے: وجہ الاستدلال بھٰذین الحدیثین انہ انما یقال لک عند الجھر لا عند السّر۔(الحاوی الفتاوی ج۱ ؍۳۹۰ ، نتیجۃالفکر فی الجھر فی

  1. علامہ سیوطیؒ لکھتے ہیں : أخرج البخاری عن ابی ھریرۃؓ قال :قال رسول اللہ ﷺیقول انا عند ظن عبدی وانا معہ اذا ذکر نی فان ذکرنی فی نفسہ ذکرتہ فی نفسی وان ذکرنی فی ملاء ذکرتہ فی ملاءخیر منہ والذکر فی الملاء لا یکون الا من الجھر ۔(الحاوی للفتاوی ج۱؍ ۳۹۷  ، الفکر فی الجہر فی الذکر)
  2. عن جابر ؓ  ان رجلا کان یرفع صوتہ بالذکر فقال رجل لو ان ھٰذا خفض من صوتہ فقال رسول اللہ ﷺ اترکہ انہ اواہ۔ (رسائل عبدالحی الکھنوی ج۳؍۴۸۷،سباحتہ الفکر فی الجیر بالذکر ؍ ۳۱ الباب الاول) 
  3. عن شداد بن اوس ؓ قال کنا عند رسول اللہ ﷺ وقال  ارفعو ا  ایدیکم فقولوا لآالٰہ الّا اللہ ففعلنا فقال رسول اللہ ﷺ اللھم انک بعثتنی بھذہ الکلم وامر تنی بھا ووعدتنی علیھا انک لا تخلف المیعاد۔ (مستدرک حاکم ج۱ ؍۵۰۱ کتاب الدعا،  باب رفع الا یدی عند لآ الٰہ الا اللہ )

رسول اللہﷺ کا عمل مذکورہ روایات سے خوب ظاہر ہے کہ آپ ﷺ نے نماز کے بعد بآوازِ بلند ذکر بھی کیا ہے اور دعا بھی فرمائی ہے اور ساتھ صحابہ کرام ؓ کو اس کی ترغیب بھی دی ہے ، یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ کے صحابہ کرام ؓ نے آپ ﷺ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے نماز کے بعد بآوازِ بلند ذکر اور دعا فرمایا کرتے تھے ۔

چند آثار بطور نمونہ پیش خدمت ہے ۔

  1. کان عمر ؓ اذا انصرف من صلوتہ قال اللّٰھم أستغفرک لذنبی وأستھدبک لأرشد أمری وأتوب إلیک فتب علیّ اللّٰھم أنت ربی فاجعل رغبتی إلیک واجعل غنائی فی صدری وبارک لی فیما رزقتنی وتقبل منی إنک أنت ربی۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج ۷ ؍ ص ۳۹)
  2. عن صلبۃ بن زفر قال سمعت ابن عمر یقول فی دبر الصلاۃ اللھم انت السلا م ومنک السلام تبارکت یا ذالجلال ِوالاکرام ۔(مصنف ابن ابی شیبہ ج ۷؍  ص۳۷)
  3. عن ابی بکر بن ابی موسٰی عن ابی موسی أنہ کان یقول اذا فرغ من صلٰوتہ اللّٰھم اغفرلی ذنبی ویسرلی أمری وبارک فی رزقی ۔  (مصنف ابن ابی شیبہ جلد ۷؍۳۶ کتاب الدعاء)

مصنف ابن ابی شیبہ ، سباحتہ الفکر اور الحاوی للفتاوی وغیرہ کتب احادیث میں صحابہ کرام ؓ کے آثار موجود ہیں جو ذکر بعدالصلٰوۃ اور دعا بعد الصلٰوۃ  بلند آواز سے ادا کرنا ثابت کرتے ہیں ۔

ان تینوں مقدمات سے خوب واضح ہوا کہ فرض نمازوں کے بعد بلند آواز سے دعا کرنا یا ذکر واذکار میں مشغول ہونا جائز ہے،علماءِامت میں سے کسی نے بھی اس کو بدعت اصطلاحی میں شمار نہیں کیا ، البتہ محققین علماء نے ریا کے خوف سے  جہر کو خلاف ِ اولٰی قرار دیا ہے اس لیے بہتر یہ ہے کہ دعا اخفاء کے ساتھ کی جائے۔

چنانچہ علامہ سیوطیؒ فرماتے ہیں: والدعا بخصوصہٖ الافضل فیہ الاسرار ولأنہ اقرب الی الاجابۃ۔ (الخاص للفتاویٰ ج۱ ؍ ص ۳۹۴ ۔ نتیجۃ الفکر فی الجھر فی الذکر)

اور علامہ عثمانی ؒ نے لکھا ہے: وقال ابن بطال اصحاب المذاھب المتبعۃ وغیرھم متفقون علیٰ عدم استحباب رفع الصوت بالتکبیر والذکر عقیب المکتوبۃ۔ (فتح الملھم: ج ۲ ؍ ص ۱۷۱ ،  باب الذکر بعد الصلوٰۃ)

چنانچہ مفتی عبدالرحیم صاحبؒ سے جب اسی مسئلہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: سری دعا افضل ہے، نمازیوں کا حرج نہ ہوتا ہو تو کبھی کبھی ذرا آواز سے دعا کرنا جائز ہے، ہمیشہ جہری دعا کی عادت بنانا مکروہ ہے۔ (فتاویٰ رحیمیہ: ج۱ ؍ ص ۱۸۳ ، متفرق مسائل)

     علامہ ابوبکر الجصاص الرازیؒ نے لکھا ہے: وما ذکر الاثار دلیل علیٰ ان  إخفاء الدعاء افضل من اظھارہٖ  لأن الخفیّۃ  ھی السر۔ (احکام القرآن: ج۴ ؍ ص ۲۰۸ ، سورۃ الاعراف)

     مگر یہ کراہت بھی تب ہے کہ مساجد یا دیگر مقامات میں بآواز بلند دعا کرنے سے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہو، ان کی نیند اور دیگر امور میں خلل واقع ہوتا ہو ، ورنہ بغیر اس کے بلند آواز سے ذکر و دعاکو مستحب قرار دیا ہے۔

     چنانچہ علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ فرماتے ہیں : عن الامام الشعرانی أجمع العلماء سلفاًو خلفاً علیٰ استحباب ذکر الجماعۃ  فی المساجد وغیرھما إلا  أن یشوش جھرھم علیٰ نائم  او مصلی او قارئ۔ (فتح الملھم: ج۲ ؍ ص۱۷۲  ،   باب الذکر بعد الصلوٰۃ)

اور جہاں تک ﴿اُدْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً﴾ (الآیۃ) کا تعلق ہے تو یہ آیت مطلق دعا کو جہراً کرنے سے منع پر دال نہیں ، اس منع سے مراد بےجا  بلند آواز سے دعا کرنے پر محمول ہے ، علماءِ امت  نےاسی پر اس کو محمول کیا ہے۔

چنانچہ علامہ عبد الحی لکھنویؒ نے لکھا ہے: أن  ھذہ الآیۃ تدل علیٰ اثبات الجھر الغیر المفرِط لا علیٰ منعہٖ  بناءً علی ما فسرھا الامام الرازیؒ   فی تفسیرہٖ ،  من  أن قولہ ﴿وَاذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً﴾ معناہ:  أُذْکُرْ خُفْیَۃً وَسِرّاً ، ومعنیٰ قولہ: ﴿وَدُونَ الْجَهْرِ﴾  المفرِط ،  والمراد منہ:  أن یقع الذکرُ بحیث یکون بین المخافۃ والجھر ، کما قال اللہ تعالی: ﴿وَ لا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ وَلا تُخافِتْ بِها وَابْتَغِ بَيْنَ ذلِكَ سَبِيلًا﴾ وعلی ھذا تدل الآیۃ علی جواز السّرّ والجھر کلیھما ، وأفضلیّۃ السّرّ للتّضرع  والخیفۃ۔ (سباحۃ الفکر: ص۱۶ ،  الباب الاول فی حکم الجھر بالذکر)

اور حدیث  ’’لا تدعون اصم ولا غائباً‘‘  بھی جہر ِمفرط پر محمول ہے۔

علامہ عثمانیؒ نے لکھا ہے: ’’واما حدیث إنکم لا تدعون اصم ولا غائباً‘‘ فمحمول عندی علی الإفراط فی رفع الصوت، واللہ اعلم۔ (فتح الملھم: ج۲ ؍ ص ۱۷۲ ، باب الذکر بعد الصلوٰۃ)

اس تمام تفصیل سے واضح ہوا کہ بعد الفرائض بلند آواز سے دعا کرنا جائز ہے اگرچہ پست آواز سے دعا کرنا افضل و بہتر ہے اس کو بدعت کہنا لاعلمی اور کتب حدیث و فقہ سے عدم ممارست کی دلیل ہے ، بلاوجہ کسی ثابت شدہ چیز کو بدعت کہنا شرعاً گناہ عظیم ہے جس سے توبہ کرنا ضروری ہے۔

مسئلہ کی مزید وضاحت کے لیے مولانا عبد الحی لکھنویؒ  کا رسالہ سباحۃ الفکر  في الجهر بالذكر اور السعاية في كشف ما في شرح الوقاية ، علامہ سیوطیؒ کی الحاوی للفتاویٰ، علامہ جصاص الرازیؒ کی احکام القرآن  اور مفتی شفیع صاحبؒ کی  معارف القرآن   کا مطالعہ کریں۔ (ھذا ما ظھر لی واللہ اعلم)            

خلاصہ یہ ہے کہ فرائض کے بعد اجتماعی دعا کے تمام اجزاء یعنی نفسِ دعا اور دونوں ہاتھ اٹھانا ،آمین کہنا ، اور ختم دعا پر دونوں ہاتھ چہرے پر پھیرنا ، سب احادیث طیبہ سے ثابت ہیں ،  لہٰذا اس کے مجموعہ کو بدعت کہنا درست نہیں ہے ۔البتہ یہ دعا آہستہ اور چپکے چپکے مانگنا افضل ہے کیونکہ قرآن وسنت میں اس کی زیادہ ترغیب دی گئی ہے اور اگر کبھی کبھی امام بلند آواز سے دعا کرے اور مقتدی اس پر آمین کہیں تو تعلیماً یہ بھی جائز ہے لیکن واضح رہے کہ فرائض کے بعد کی مذکورہ دعا کا درجہ تفصیل بالا کی روشنی میں زیادہ سے زیادہ سنت ِمستحبہ ہے لہٰذا اس دعا کو اس کے اِسی درجہ میں رکھتے ہوئے کرنا چاہیے ۔

     بعض لوگ اس دعاکو فرض وواجب کی طرح ضروری سمجھتے ہیں اور اسی درجہ میں اس پر عمل کرتے ہیںِ،  سو یہ واجب الترک ہے، اسی طرح بعض لوگ اس کا التزام کرتے ہیں کہ امام اور مقتدی سب مل کر ہی دعا کریں ابتداء بھی ساتھ ہو اور انتہا بھی ساتھ ہو جیسا کہ بعض مساجد میں دیکھا جا تا ہے کہ امام کی دعا کے شروع میں مؤذن زور سے الحمد للّٰہ رب العالمین پڑھتا ہے اور جب امام دعا ختم کرتا ہے تو برحتمک یا ارحم الراحمین ، پکار کر کہتا ہے،  اسکو ترک کرنا ضروری ہے،  کیونکہ اس التزام کا نتیجہ یہ ہے کہ مقتدی حضرات امام کی دعا کا انتظار کرتے رہتے ہیں کوئی مقتدی امام کی دعا سے پہلے اپنی دعا نہیں کر سکتا، ورنہ لوگ اس پر طعن کرتے ہیں اور اس کے اس عمل کو معیوب سمجھتے ہیں،  حالانکہ اوپر لکھا جا چکا ہے کہ اس دعا میں اجتماع اصل مقصود نہیں بلکہ وہ ایک ضمنی چیز ہے لہٰذا تابع کو اصل دعا کے درجہ سے آگے بڑھانا بھی درست نہیں جتنی دیر چاہے امام دعا کرے اور جتنی دیر چاہے مقتدی دعا مانگے دونوں ایک دوسرے کے تابع نہیں ہیں، مقتدی کو اختیار ہے کہ اپنی مختصر دعا مانگ کر چلا جائے اور چاہے امام کے ساتھ دعا ختم کرے اور چاہے امام کی دعا سے زیادہ دیر تک دعا کرتا رہے،  ہر طرح جائز ہے اور ہر طرح فرائض کے بعد کی یہ سنت مستحبہ ادا ہو جاتی ہے ۔

درس ِقرآن یا درسِ حدیث یا وعظ وتبلیغ کے موقعہ پر اجتماعی طور پر دعا کرنا بلاشبہ جائز ہے اورحدیث ِذیل اور صحابی کے عمل سے ایسی اجتماعی دعاکرنا صراحت کے ساتھ ثابت ہے اور تعامل امت بھی اسکے جائز ہونے کی مستقل دلیل ہے لہٰذا اس کو بدعت قرار دینا درست نہیں ہے ۔

  کذا فی ’’فتاوی حقانیہ ‘‘، وفی ’’فرض  نماز کے بعد  دعا کا ثبوت اور اس کا درجہ، مؤلف:  مولانا مفتی عبد الرؤف سکھروی  دامت برکاتہم‘‘

واللہ اعلم بالصواب

احقرمحمد ابوبکر صدیق  غفراللہ لہ

دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ

۲۸ ؍ رجب المرجب  ؍ ۱۴۳۹ھ

                ۱۵ ؍اپریل   ؍ ۲۰۱۸ء