24 Apr, 2024 | 15 Shawwal, 1445 AH

Question #: 2348

January 14, 2019

اسلام علیکم حضرت میں آپ سے مندرجہ ذیل سوالات کرنا چاہتا ہوں ١. قرآن پاک کو ہاتھ لگانے سے پہلے وضو کرنے کی شرط کس درجے میں آتی ہے فرض ، سنّت، یا مستحب ٢ کیا بغیر وضو قرآن کو ہاتھ لگانےوالا گنہگار ہو گا ٣ . کیا وضو کے بغیر قرآن کو ہاتھ لگانے کی شرط میں نابالغ بچوں یاحفظ کے طلبا کے لئے رعایت اور گنجائش ہے. ٤. چھوٹے بچوں کو قرآن سکھانےاور شوق پیدا کرنے کے لئے سپارے دے جائیں تو اسکی کوئی گنجائش ہے یا نہیں ٥.حا لتے جنابت میں حفظ اور مدرسے کی طالبات قرآن کو تلاوت اور چھو سکتی ہیں یا آیات کو توڑ کر پڑھ سکتی ہیں ٦.حا لتے جنابت میں حفظ اور مدرسے کی طالبات کیا دل میں قرآن سے دیکھ کر پڑھ سکتی ہیں یا موبائل پر سے دیکھ کر پڑھ سکتی ہیں حضرت مسلہ الہدا انٹرنیشنل کی ایک طلبا کو ریفرنس کے ساتھ سمجھانا ہے گزارش ہے کے احادیث اور صحابہ کرام کے اقوال کے ساتھ وضاحت کریں الله ہمیں سلف صالحین کے نقشے قدم پر چنلے کی توفیق دے

Answer #: 2348

اسلام علیکم حضرت میں آپ سے مندرجہ ذیل سوالات کرنا چاہتا ہوں؛

 ١. قرآن پاک کو ہاتھ لگانے سے پہلے وضو کرنے کی شرط کس درجے میں آتی ہے فرض ، سنّت، یا مستحب؟

 ٢ کیا بغیر وضو قرآن کو ہاتھ لگانےوالا گنہگار ہو گا؟

 ٣ . کیا وضو کے بغیر قرآن کو ہاتھ لگانے کی شرط میں نابالغ بچوں یاحفظ کے طلبا کے لئے رعایت اور گنجائش ہے؟

٤. چھوٹے بچوں کو قرآن سکھانےاور شوق پیدا کرنے کے لئے سپارے دے جائیں تو اسکی کوئی گنجائش ہے یا نہیں ؟

٥.حا لت جنابت میں حفظ اور مدرسے کی طالبات قرآن کی تلاوت اور چھو سکتی ہیں یا آیات کو توڑ کر پڑھ سکتی ہیں ؟

٦.حا لت جنابت میں حفظ اور مدرسے کی طالبات کیا دل میں قرآن سے دیکھ کر پڑھ سکتی ہیں یا موبائل پر سے دیکھ کر پڑھ سکتی ہیں؟

 حضرت مسئلہ الہدی  انٹرنیشنل کی ایک طالبہ کو ریفرنس کے ساتھ سمجھانا ہے۔ گزارش ہے کہ احادیث اور صحابہ کرام کے اقوال کے ساتھ وضاحت کریں۔ الله ہمیں سلف صالحین کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے۔

الجواب حامدا ومصلیا

۱۔۔۔ قرآن مجید کو چھونے کے لیے وضوء کرنا ضروری ہے، بغیر وضوء کے قرآن کو چھونا جائز نہیں۔ چند دلائل یہ ہیں:

1- اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

" لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ " (الواقعة: 79)

ترجمہ: اس کو وہی لوگ چھوتے ہیں جو خوب پاک ہیں۔

اس آیت کی تفسیر میں علامہ عبد اللہ بن احمد النسفی رحمہ اللہ [م۷۰۱ھ] فرماتے ہیں:

وإن جعلتها صفة للقرآن فالمعنى لا ينبغي أن يمسه إلا من هو على الطهارة من الناس (مدارک التنزیل: ۲/ ۶۴۲)

ترجمہ: لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ کو اگر قرآن کی صفت قرار دیا جائےتو آیت کا معنی یہ ہو گا کہ قرآن کو وہی لوگ چھوئیں جو پاک ہوں۔

علامہ آلوسی بغدادی رحمہ اللہ [م۱۲۷۰ھ] فرماتے ہیں:

وكون المراد بهم المطهرين من الأحداث مروي عن محمد الباقر على آبائه وعليه السلام وعطاء وطاوس وسالم (روح المعانی للآلوسی ج14ص154)

کہ ”مطھرون“ سے مراد وہ لوگ ہیں جو حدث سے پاک ہوں (یعنی انسان مراد ہیں)

اگرچہ بعض حضرات نےاس آیت میں ”مطھرون“ سے مراد فرشتے لیے ہیں، لیکن مفسرین کی اکثر یت نے عموم الفاظ اور احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظراس سے انسان مراد لیے ہیں۔

 ملا جیون رحمہ اللہ )م۱۱۳۰ھ) فرماتے ہیں:

الاکثر علی انه نفی بمعنی النهی، و ان الضمیر المنصوب راجع الی القرآن ..... ای: لا یمس ھذا القرآن الا المطھرون من الاحداث فلا یمسه المحدث و الجنب و لا الحائض و لا النفساء.

(تفسیرات احمدیہ: ص۶۸۳ سورۃ الواقعۃ)

کہ اکثر مفسرین کا موقف یہ ہے کہ یہاں نفی نہی کے معنی میں ہے اور ضمیر منصوب قرآن کی طرف راجع ہے یعنی اس قرآن کو وہی لوگ چھوئیں جو احداث سے پاک ہوں۔ لہذا قرآن کو بے وضوء، جنبی، حائضہ اور نفاس والی عورت نہ چھوئیں۔

علامہ شامی رحمہ اللہ [م ۱۲۵۲ھ] دونوں احتمال ذکر کرنے کے بعد مندرجہ بالا تفسیر کو اکثر مفسرین کا موقف قرار دیتے ہیں، چنانچہ لکھتے ہیں:

وَعَلَى الثَّانِي الْمُرَادُ مِنْهُمْ النَّاسُ الْمُطَهَّرُونَ مِنْ الْأَحْدَاثِ وَعَلَيْهِ أَكْثَرُ الْمُفَسِّرِين    (رد المحتار: کتاب الطہارۃ)

ترجمہ:دوسرے احتمال کے مطابق اس [المطہرون] سے وہ لوگ مراد ہیں جوحدث سے پاک ہوں اور یہی اکثر مفسرین کا موقف ہے۔

حافظ ابو بکر رحمہ اللہ(م۳۷۰ھ)  نے اسی تفسیر کو راجح قرار دیا ہے۔

 چنانچہ حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

انه کتب فی کتابه لعمرو بن حزم: و لا یمس القرآن الا طاهر فوجب ان یکون نهیه ذلک بالآیة   (احکام القرآن: ج۳ ص۶۲۱)

ترجمہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک خط میں جو حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کے ہاتھ (اہل یمن کو)بھیجا تھا، لکھا: ”قرآن کو صرف پاک لوگ ہی چھوئیں“، توعین ممکن ہے کہ آپ کا یہ فرمانا اسی آیت کی وجہ سے ہو۔

2: حضرت عبد الرحمٰن بن یزید سے روایت ہے، فرماتے ہیں:

كُنَّا مَعَ سَلْمَانَ فِي حَاجَةٍ ، فَذَهَبَ فَقَضَي حَاجَتَهُ ثُمَّ رَجَعَ ، فَقُلْنَا لَهُ : تَوَضَّأْ ، يَا أَبَا عَبْدِ اللهِ لَعَلَّنَا أَنْ نَسْأَلَك عَنْ آيٍ مِنَ الْقُرْآنِ ؟ قَالَ : قَالَ : فَاسْأَلُوا ، فَإِنِّي لاَ أَمَسُّهُ ، إِنَّهُ لاَ يَمَسُّهُ إِلاَّ الْمُطَهَّرُونَ ، قَالَ : فَسَأَلْنَاهُ ، فَقَرَأَ عَلَيْنَا قَبْلَ أَنْ يَتَوَضَّأَ.

مصنف ابن ابی شیبہ: في الرجل يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَهُوَ غَيْرُ طَاهِرٍ،مصنف عبدالرزاق ج1ص263رقم1327باب القراءۃ علیٰ غیر وضوء"

کہ ہم حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے پاس کسی کام کے سلسلے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ قضاء حاجت کےلیے تشریف لے گئے، جب واپس آئے تو ہم نے عرض کی: (آپ وضوء کر لیں) ہم قرآن کی چند آیات آپ سے پوچھنا چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: پوچھو! کیوں کہ میں قرآن کو ہاتھ نہیں لگاؤں گا، اسے تو صرف پاک لوگ ہی چھوتے ہیں۔ عبد الرحمٰن بن یزید کہتے ہیں کہ ہم نے آپ سے چند آیات پوچھیں تو آپ نے وضوء کرنے سے قبل مطلوبہ آیات پڑھیں۔

اس سے واضح ہوا کہ مس قرآن کے لیے وضوء شرط ہے، البتہ تلاوت قرآن بغیر وضوء کے کی جا سکتی ہے۔

امام حاکم اور امام ذہبی رحمہما اللہ فرماتے ہیں: یہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ کی شرط کے مطابق صحیح ہے۔

(مستدرک الحاکم مع التلخیص ج2ص519تفسیر سور ۃالواقعہ)

3:  حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں روایت کرتے ہیں:

أَنَّهُ كَتَبَ إِلَى أَهْلِ الْيَمَنِ بِكِتَابٍ فِيهِ الْفَرَائِضُ وَالسُّنَنُ وَالدِّيَاتُ وَبَعَثَ بِهِ مَعَ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ وَفِيهِ :« وَلاَ يَمَسُّ الْقُرْآنَ إِلاَّ طَاهِرٌ

(السنن الکبریٰ بیہقی ج1ص87رقم416باب نہی المحدث عن مس المصحف،موطا امام محمد ص163رقم296باب الرجل یمس القرآن وہو جنب او علیٰ غیر طہارۃ)

کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اہل یمن کی طرف ایک خط لکھا، جس میں فرائض، سنن اور دیت کے احکامات تھے، یہ خط حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کے ہاتھ (اہل یمن کو)بھیجا ،منجملہ اس خط میں یہ بھی لکھا تھا :”قرآن کو صرف پاک لوگ ہی چھوئیں

4: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد نقل فرماتے ہیں:

لا يمس القرآن إلا طاهر        (المعجم الصغیر للطبرانی ج2ص139حدیث1162)

کہ قرآن کو صرف پاک لوگ ہی چھوئیں۔

علامہ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس روایت کے راویوں کی توثیق کی گئی ہے، یعنی یہ راوی ثقہ ہیں۔

(مجمع الزوائد: ج1ص387باب فی مس القرآن)

5: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں مروی ہے:

أَنَّهُ كَانَ لاَ يَمَسُّ الْمُصْحَفَ إِلاَّ وَهُوَ طَاهِرٌ

(مصنف ابن ابی شیبہ ج2 ص256 رقم7506باب فی الرجل علی غیر وضوء والحائض یمسان المصحف)

کہ آپ مصحف کو صرف پاک ہونے کی حالت میں چھوتے تھے۔

ان دلائل سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ قرآن مجید کو چھونے کے لیے پاک ہونا ضروری ہے، ائمہ اربعہ اور دیگر فقہاء کا اس بات پر اجماع ہے کہ بغیر وضو کے قرآن مجید کو ہاتھ لگانا جائز نہیں ہے۔

 ٢۔۔۔ جی !    بغیر وضو قرآن کو ہاتھ لگانےوالا گنہگار ہو گا۔

 ٣۔۔۔ چھوٹے نابالغ بچوں پر وضو فرض نہیں، ان کا بلاوضو قرآن مجید کو ہاتھ لگانا دُرست ہے، البتہ ان کو تعلیم کے لیے بتلانا اور سمجھانا ضروری ہے  کہ قرآن کریم کو بلا وضو  ہاتھ نہ لگایا کریں۔

٤۔۔۔ چھوٹے بچوں کو قرآن سکھانے کے لئے سپارے دے سکتے ہیں، اس کی گنجائش ہے ۔

٥۔۔۔ قرآن  پڑھنے،پڑھانے والی  عورت کے لیے ماہواری کے ایام میں  قرآن کریم کی تلاوت کرنا اور اس کو ہاتھ لگانا جائز نہیں، البتہ وہ قرآن کریم کو چھوئے بغیر قرآن   سن سکتی ہے، سننے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور معلمہ کے لیے  غلط پڑھے ہوئے الفاظ کو درست  کرانےاور بچوں کو  سبق یا د کرانے کا طریقہ یہ ہے کہ آیت کا  ہر ہر کلمہ الگ  الگ کرکے  بتلایا جائے، یعنی رواں پڑھنے کےبجائے سانس توڑ توڑ کر پڑھائے، مثلاً: الحمد ..... للہ ...... ربّ ..... العالمین. اس طرح معلّمہ کے لیے آیت  کے کلمات کے لیے ہجے کرانا جائز ہے۔

٦۔۔۔عورتوں کے لیے خاص ایام میں قرآنِ کریم کا زبان سے پڑھنا جائز نہیں، حافظہ کو بھولنے کا اندیشہ ہو تو بغیر زبان ہلائے دِل میں سوچتی رہے ، یا  قرآن کریم  موبائل وغیرہ سے سنتی  رہے، سننا بھی یاد کرنے اور یاد رکھنے کا ایک ذریعہ ہے۔

فی الفتاوى الهندية (1/ 38)

وإذا حاضت المعلمة فينبغي لها أن تعلم الصبيان كلمة كلمة وتقطع بين الكلمتين ولا يكره لها التهجي بالقرآن كذا في المحيط ولا يكره قراءة القنوت في ظاهر الرواية كذا في التبيين وعليه الفتوى كذا في التجنيس والظهيرية ويجوز للجنب والحائض الدعوات وجواب الأذان ونحو ذلك في السراجية ومنها حرمة مس المصحف لا يجوز لهما وللجنب والمحدث مس المصحف.

وفی الدر المختار (1/ 174)

 ( ولا ) يكره ( مس صبي لمصحف ولوح ) ولا بأس بدفعه إليه وطلبه منه للضرورة إذ الحفظ في الصغر كالنقش في الحجر.

وفی حاشية ابن عابدين (1/ 174)

( ولا يكره مس صبي الخ ) فيه أن الصبي غير مكلف والظاهر أن المراد لا يكره لوليه أن يتركه يمس بخلاف ما لو رآه يشرب خمرا مثلا فإنه لا يحل له تركه ... قوله ( ولا بأس بدفعه إليه ) أي لا بأس بأن يدفع البالغ المتطهر المصحف إلى الصبي ولا يتوهم جوازه مع وجود حدث البالغ ح قوله ( للضرورة ) لأن في تكليف الصبيان وأمرهم بالوضوء حرجا بهم وفي تأخيره إلى البلوغ تقليل حفظ القرآن درر قال ط وكلامهم يقتضي منع الدفع والطلب من الصبي إذا لم يكن معلما

وفی الفقه الإسلامي وأدلته (1/ 394)

مس المصحف كله أو بعضه ولو آية: والمحرم هو لمس الآية ولو بغير أعضاء الطهارة لقوله تعالى: {لا يمسه إلا المطهرون} [الواقعة:79/56]، أي المتطهرون، وهو خبر بمعنى النهي، ولقوله صلّى الله عليه وسلم : «لا يمس القرآن إلا طاهر» (4) ، ولأن تعظيم القرآن واجب، وليس من التعظيم مس المصحف بيد حلَّها الحدث. واتفق الفقهاء على أن غير المتوضئ يجوز له تلاوة القرآن أو النظر إليه دون لمسه، كما أجازوا للصبي لمس القرآن للتعلم؛ لأنه غير مكلف، والأفضل التوضؤ. ويجوز للصبي مس القرآن أو لوح منه للضرورة من أجل التعلم والحفظ.

وفی حاشية ابن عابدين (1/ 293)

قوله ( وقراءة قرآن ) أي ولو دون آية من المركبات لا المفردات لأنه جوز للحائض المعلمة تعليمه كلمة كلمة كما قدمناه وكالقرآن التوراة والإنجيل والزبور كما قدمه المصنف .قوله ( بقصده ) فلو قرأت الفاتحة على وجه الدعاء أو شيئا من الآيات التي فيها معنى الدعاء ولم ترد القراءة لا بأس به.

وفی صحيح البخاري: باب قراءة الرجل في حجر امرأته وهي حائض.

حدثنا أبو نعيم الفضل بن دكين سمع زهيرا عن منصور بن صفية أن أمه حدثته أن عائشة حدثتها أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يتكئ في حجري وأنا حائض ثم يقرأ القرآن.

والله اعلم بالصواب

احقرمحمد ابوبکر صدیق  غفراللہ لہ

دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ

‏14‏ جمادى الأول‏، 1440ھ

‏21‏ جنوری‏، 2019ء