Question #: 3056
December 10, 2022
Answer #: 3056
الجواب حامدا ومصلیا
درزی کے پاس جو کپڑا بچا ہو، اگر وہ ایسا معمولی سا ٹکڑا ہو کہ کپڑے کے مالک خود اسے چھوڑ دیتے ہوں اور اسے نہ لے جاتے ہوں، تو ایسی معمولی سے ٹکڑےکو درزی استعمال کرلے تو کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ اتنی معمولی کترن میں مالک کی طرف سے عرفاً اور حکماً اجازت ہوتی ہے، لیکن اگر بچا ہوا ٹکڑا کار آمد ہو اور مالک عموماً ایسے ٹکرے نہ چھوڑتے ہوں، تو اگر مالک کی اجازت سے درزی وہ کپڑا اپنے پاس رکھ لے، تب تو وہ استعمال کرسکتا ہے اور اگر مالک کی اجازت نہ ہو یا مالک سے چھپا کر کپڑا بچالے تو یہ کپڑا چوری کا کہلائے گا اور اس کپڑے کا استعمال اس کے لئے جائز نہیں ہوگا۔ نیز گاہک کا بچا ہوا کپڑا، اس کے تیار شدہ کپڑے کے ساتھ رکھ دیا جائے، اس صورت میں اگر گاہک دیر سے آتا ہے، تب بھی اس کا بچا ہوا کپڑا تلاش کرنے ميں تكليف نہيں ہوگی ، مالک کا پورا کپڑا بآسانی واپس کرنا ممکن ہوگا۔
الاشباه و النظائر: (243/1)
لا يجوز التصرف في مال غيره بغير إذنه
الفتاوی الهندیة: (167/2)
لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي كذا في البحر الرائق.
رد المحتار: (99/5)
والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم
والله اعلم بالصواب
احقرمحمد ابوبکر صدیق غَفَرَاللہُ لَہٗ
دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ