24 Apr, 2024 | 15 Shawwal, 1445 AH

Question #: 2487

August 23, 2019

Aslam o ALIKUM Is it allowed for a Muslim to live in DARUL kuffar where the rule of kuffar prevails Or to migrate from that place

Answer #: 2487

کیا کسی مسلمان کو دارالکفر میں رہنے کی اجازت ہے جہاں کفر کی حکمرانی ہے یا اس جگہ سے ہجرت کی جاسکتی ہے؟

الجواب حامدا ومصلیا

کسی غیر مسلم ملک میں مستقل رہائش اختیار کرنا اور اس کی قومیت اختیار کرنا اور اس ملک کے باشندے اور ایک شہری ہونے کی حیثیت سے اس کو اپنا مستقل مسکن بنالینا ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا علم زمانہ اور حالات کے اختلاف اور رہائش اختیار کرنے والوں کی اغراض و مقاصد کے اختلاف سے مختلف ہو جاتا ہے۔ مثلا:

(۱)۔۔۔ اگر ایک مسلمان کو اس وطن میں کسی جرم کے بغیر تکلیف پہنچائی جارہی ہو یا اس کو جیل میں ظلماً قید کر لیا جائے یا اس کی جائیداد ضبط کر لی جائے اور کسی غیر مسلم ملک میں رہائش اختیار کرنے کے سوا ان مظالم سے بچنے کی اُس کے پاس کوئی صورت نہ ہو۔ ایسی صورت میں اس شخص کے لئے کسی غیر مسلم  ملک میں رہائش اختیار کرنا اور اس ملک کا ایک باشندہ بن کر وہاں رہنا بلا کراہت جائز ہے۔ بشرطیکہ اس بات کا اطمینان ہو کہ وہاں جاکر عملی زندگی میں دین کے احکام پر کار بند رہے گا اور وہاں رائج شده منکرات و فواحشات سے اپنے کو محفوظ رکھ سکے گا۔

(۲) ۔۔۔ اسی طرح اگر کوئی شخص معاشی مسئلہ سے دو چار ہو جائے اور تلاش بسیار کے باوجود اسے اپنے اسلامی ملک میں معاشی وسائل حاصل نہ ہوں ، توان حالات میں اگر اس کو کسی غیر مسلک ملک میں کوئی جائز ملازمت مل جائے، جس کی بناء پر وہ وہاں رہائش اختیار کر لے تو مذکورہ بالا دو شر ائط (جن کا بیان نمبر ایک میں گزرا) اس کے لئے وہاں رہائش اختیار کرنا جائز ہے۔ اس لئے کہ حلال کمانا بھی دوسرے فرائض کے بعد ایک فرض ہے جس کے لئے شریعت نے کسی مکان اور جگہ کی قید نہیں لگائی بلکہ عام اجازت دی ہے کہ جہاں چاہو رزق حلال تلاش کرو چنانچہ قرآن کریم کی آیت ہے:۔

{هو الذي جعل لكم الأرض ذلولا فامشوا في مناكبها وكلوا من رزقہ وإليه النشور} [الملك:۱۵]

 وہ اسی ذات ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو مسخر کر دیا۔ اب تم اسکے راستوں میں چلو اور خدا کی روزی میں سے کماؤ اور اسی کے پاس دوباره زنده ہو کر جانا ہے۔" (سورہ ملک ۱۵)

(۳)۔۔۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کسی ملک میں اس نیت سے رہائش اختیار کرے کہ وہ وہاں کے غیر مسلموں کو  اسلام کی دعوت دے گا اور ان کو مسلمان بنائے گا، یا جو مسلمان وہاں مقیم ہیں ان کو شریعت کے صحیح احکام بتائے گا اور ان کو دین اسلام پر جمے رہنے اور احکام شرعیہ پر عمل کرنے کی ترغیب دے گا اس نیت سے وہاں رہائش اختیار کر نا صرف یہ نہیں کہ جائز ہے بلکہ  باعث اجر و ثواب ہے۔ چنانچہ بہت سے صحابہ اور تابعین رضوان اللہ علیھم اجمعین نے اسی نیک ارادے اور نیک مقصد کے تحت غیر مسلم ممالک میں رہائش اختیار کی۔ اور جو بعد میں ان کے فضائل و مناقب اور محاسن میں شمار ہونے لگی۔

(۴)۔۔۔ اگر کسی شخص کو اپنے ملک اور شہر میں اس قدر معاشی وسائل حاصل ہیں، جس کے ذریعہ وہ اپنے شہر کے لوگوں کے معیار کے مطابق زندگی گزار سکتا ہے۔ لیکن صرف معیار زندگی بلند کرنے کی غرض سے اور خوشحالی اور عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کی غرض سے کسی غیر مسلم ملک کی طرف ہجرت کرتا ہے تو ایسی ہجرت کراہت سے خالی نہیں ہے، اس لئے کہ اس صورت میں دینی یاد نیاوی ضروریات کے بغیر اپنے آپ کو وہاں رائج شدہ فواحشات و منکرات کے طوفان میں ڈالنے کے مترادف ہے اور بلا ضرورت اپنی دینی اور اخلاقی حالت کو خطرہ میں ڈالنا کسی طرح بھی درست نہیں اس لئے کہ تجربہ اس پر شاہد ہے کہ جو لوگ صرف عیش و عشرت اور خوش حالی کی زندگی بسر کرنے کے لئے وہاں رہائش اختیار کرتے ہیں ان میں دینی حمیت کمزور ہو جاتی ہے چنانچہ ایسے لوگ کافرانہ محرکات کے سامنے تیز رفتاری سے پگھل جاتے ہیں۔اسی وجہ سے حدیث شریف میں شدید ضرورت اور تقاضے کے بغیر مشرکین کے ساتھ رہائش اختیار کرنے کی ممانعت آئی ہے۔

چنانچہ ابو داؤد میں حضرت سمرة بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا:۔

"من جامع المشرک وسكن معه، فإنه مثله"

ترجمہ: جو شخص مشرک کے ساتھ موافقت کرے اور اس کے ساتھ رہائش اختیار کرے، وہ اسی کے مثل ہے۔" (ابو داؤد، کتاب الضحايا)

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا:۔

"أنا بریئی من کل مسلم يقيم بين اظهر المشركين قالوا یارسول الله! لم ؟قال لا يتراٰی ناراهما"

ترجمہ: میں ہر اس مسلمان سے بری ہوں، جو مشرکین کے در میان رہائش اختیار کرے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے سوال کیا، یا رسول اللہ! اس کی کیا وجہ ہے؟ آپﷺ نے فرمایا۔ دونوں کی آگ ایک دوسرے کو نظر نہ آئے۔"

امام خطابی رحمہ اللہ تعالی، حضور ان کے اس قول کی تشریح کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ :۔

"مختلف اہل علم نے اس قول کی شرح مختلف طریقوں سے کی ہے۔ چنانچہ بعض اہل علم کے نزدیک اس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمان اور مشرک علم کے اعتبار سے برابر نہیں ہو سکتے ، دونوں کے مختلف احکام ہیں اور دوسرے اہل علم فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے دار الاسلام اور دارالکفر دونوں کو علیحدہ علیحدہ کر دیا ہے، لہذا کسی مسلمان کے لئے کافروں کے ملک میں ان کے ساتھ رہائش اختیار کرنا جائز نہیں، اس لئے کہ جب مشرکین اپنی آگ روشن کریں گے اور یہ مسلمان ان کے ساتھ سکونت اختیار کئے ہوئے ہو گا،  تو دیکھنے سے یہی خیال کریں گے یہ بھی انہیں میں سے ہے۔ علماء کی اس تشریح سے یہ بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ اگر کوئی مسلمان تجارت کی غرض سے بھی دار الکفر جائے تو اس کے لئے وہاں پر ضرورت سے زیادہ قیام کرنا مکروہ ہے۔"

 (معالم السنن للخطابی ج۳ص۴۳۷)

اور مراسیل ابو داؤد عن الكحول میں روایت ہے کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا:۔

"اپنی اولاد کو مشرکین کے در میان مت چھوڑو۔"

(تھذیب السنن، ابن قیم ج۳ص۲۳۷)

اسی وجہ سے فقهاء فرماتے ہیں کہ صرف ملازمت کی غرض سے کسی مسلمان کا دار الحرب میں رہائش اختیار کر نااوراُن کی تعداد میں اضافہ کا سبب بننا ایسا عمل ہے جس سے اُس کی عدالت مجروح ہو جاتی ہے۔

(تکملہ رد المحتار ج۱ص ۱۰۱)

(۵)۔۔۔ پانچویں صورت یہ ہے کہ کوئی شخص سوسائٹی میں معزز بننے کے لئے اور دوسرے مسلمانوں پر اپنی بڑائی کے اظہار کے لئے غیر مسلم ممالک میں رہائش اختیار کرتا ہے یا دارالکفر کی شہریت اور قومیت کو دارالاسلام کی قومیت پر فوقیت دیتے ہوئے اور اس کو افضل اور برتر سمجھتے ہوئے اس کی قومیت اختیار کرتا ہے یا اپنی پوری عملی زندگی میں بودوباش میں ان کا طرز اختیار کر کے ظاہری زندگی میں اُن کی مشابہت اختیار کرنے کے لئے اور ان جیسا بننے کے لئے رہائش اختیار کرتا ہے۔ ان تمام مقاصد کے لئے وہاں رہائش اختیار کرنا مطلقاًحرام ہے۔ جس کی حرمت محتاجِ دلیل نہیں ہے۔ (بحوث في قضایا فقہیۃ معاصرة ج ۱، ص۳۲۸-۳۳۱)

والله اعلم بالصواب

احقرمحمد ابوبکر صدیق  غَفَرَاللّٰہُ لَہٗ

دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ

‏04‏ محرّم‏ الحرام، 1441ھ

‏04‏ ستمبر‏، 2019ء