23 Apr, 2024 | 14 Shawwal, 1445 AH

Question #: 2008

July 19, 2017

hazrat muhammad salalah ho alihi wasalam ny farmiya : namaz issi tera pharo jasy mujy party dekhty ho (sahi bukhari hadhes #631) is hadhes ka sahii tarjma kya h ??? is mein aurtoon ki namaz b shmal hai? mny y phra hai k is hadhes k matabic sub marat aur aurtiin ek hi tarkha sy namaz pry jasy nabi pak ny farmaya hai nabi pak ny kisi b sahi hadhes mein marat aur k taraky mein faraq nahi batya is hadhes ko sahii sy byain kryy mtlb smja den jazak Allah khair

Answer #: 2008

السلام علیکم !

حضرت محمد ﷺ نے فرمایا ہے: نماز اسی طرح پڑھو، جیسے  مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔ صحیح البخاری

اس حدیث کا صحیح ترجمہ   کیا ہے؟ کیا یہ عورتوں کو بھی شامل ہے  یانہیں؟

ایک جگہ پر پڑھا ہے کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مرد وں اور عورتوں کی نماز میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اور کسی صحیح حدیث میں مردوں اور عورتوں کی نماز میں کوئی فرق نہیں بتایا گیا۔

مجھے اس حدیث کا مطلب سمجھا دیں۔ جزاکم اللہ

الجواب حامدا ومصلیا

مرد اور عورت کی نماز میں درج ذیل اعمال کی کیفیت میں فرق ہے:

(۱) رفع یدین: مرد اپنے ہاتھوں کو کانوں تک اٹھائےاور عورت دونوں ہاتھ سینہ تک اٹھائے گی۔

عن وائل بن حجر رضي اللّٰه عنه قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: یا وائل بن حجر إذا صلیت فاجعل یدیک حذاء أذنیک، والمرأة تجعل یدیها حذاء ثدیها. (منتخب کنز العمال علی ہامش مسند أحمد ۳؍۱۷۵، مجمع الزوائد ۲؍۱۰۳، المصنف لابن أبي شیبة ۱؍۲۳۹، طبراني کبیر ۲۲؍۲۰)

ترجمہ:حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا (درمیان میں طویل عبارت ہے، اس میں ہے کہ) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے ارشاد فرمایا: اے وائل! جب تم نماز پڑھو تو اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاؤ اور عورت اپنے دونوں ہاتھ اپنی چھاتی کے برابر اٹھائے۔

(۲) ہاتھ باندھنے کی جگہ:  عورت کے بارے میں اجماع ہے کہ وہ قیام کے وقت اپنے ہاتھ سینہ پر رکھے گی اور اجماع مستقل دلیل شرعی ہے۔

 امام ابو القاسم ابراہیم بن محمد القاری الحنفی السمر قندی (المتوفیٰ بعد907ھ) لکھتے ہیں:

وَ الْمَرْاَُة تَضَعُ [یَدَیْھَا]عَلٰی صَدْرِھَا بِالْاِتِّفَاقِ.

(مستخلص الحقائق شرح کنز الدقائق:۱۵)

ترجمہ: عورت اپنے ہاتھ سینہ پر رکھے گی،اس پر سب فقہاء کا اتفاق ہے۔

سلطان المحدثین ملا علی قاری رحمہ اللہ (م1014ھ) فرماتے ہیں:

وَ الْمَرْاةتَضَعُ [یَدَیْھَا]عَلٰی صَدْرِھَا اِتِّفَاقًا لِاَنَّ مَبْنٰی حَالِھَا عَلَی السَّتْرِ.

العنایة:  ۱/ ۲۴۳ سنن الصلوة)

ترجمہ:عورت اپنے ہاتھ سینہ پر رکھے گی،اس پر سب فقہاء کا اتفاق ہے، کیونکہ عورت کی حالت کا دارو مدار پردے پر ہے۔

علامہ عبد الحئی لکھنوی رحمہ اللہ (م1304ھ) لکھتے ہیں:

وَاَمَّا فِیْ حَقِّ النِّسَائِ فَاتَّفَقُوْا عَلٰی اَنَّ السُّنَّۃَ لَھُنَّ وَضْعُ الْیَدَیْنِ عَلَی الصَّدْرِ لِاَنَّھَامَا اَسْتَرُ لَھَا.

(السعایة: ۲ /۱۵۶)

ترجمہ:رہا عورتوں کے حق میں[ہاتھ باندھنے کا معاملہ]تو تمام فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ان کے لیےسنت سینہ پر ہاتھ باندھناہے کیونکہ اس میں پردہ زیادہ ہے۔

 (۳) سجدہ کی ہیئت:  مرد سجدہ کی حالت میں پیٹ کو رانوں سے بازو کو بغل سے جدا رکھے اور کہنیاں زمین سے علیحدہ رکھے اور عورت پیٹ کو رانوں سے اوربازو کو بغل سے ملا رکھے اورکہنیاں زمین پر بچھاکر سجدہ کرے۔

عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَاجَلَسَتِ الْمَرْاَۃُ فِی الصَّلٰوۃِ وَضَعَتْ فَخِذَھَا عَلٰی فَخِذِھَا الْاُخْریٰ فَاِذَا سَجَدَتْ اَلْصَقَتْ بَطْنَھَا فِیْ فَخِذِھَاکَاَسْتَرِمَا یَکُوْنُ لَھَا فَاِنَّ اللّٰہَ یَنْظُرُ اِلَیْھَا وَ یَقُوْلُ یَا مَلَائِکَتِیْ اُشْھِدُکُمْ اَنِّیْ قَدْغَفَرْتُ لَھَا.

(الکامل لابن عدی:۲ /۵۰۱، السنن الکبری للبیہقی: ۲/ ۲۲۳ ، باب ما یستحب للمراة الخ، جامع الاحادیث للسیوطی: ۳ / ۴۳ )

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب عورت نماز میں بیٹھے تو اپنی ایک ران دوسری ران پر رکھے اور جب سجدہ کرے تو اپنا پیٹ اپنی رانوں کے ساتھ ملا لے جو اس کے لئے زیادہ پردے کی حالت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی طرف دیکھتے ہیں اور فرماتے ہیں:اے میرے ملائکہ ! گواہ بن جاؤ میں نے اس عورت کو بخش دیا۔

عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍالْخُدْرِیِّ رضی اللہ عنہ صَاحِبِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَنَّہٗ قَالَ... کَانَ یَاْمُرُالرِّجَالَ اَنْ یَّتَجَافُوْا فِیْ سُجُوْدِھِمْ وَ یَاْمُرُالنِّسَائَ اَنْ یَّتَخَفَّضْنَ.

 (السنن الکبریٰ للبیہقی: ۲ / ۲۲۲، ۲۲۳، باب ما یستحب للمراةالخ)

ترجمہ: صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو حکم فرماتے تھے کہ سجدے میں (اپنی رانوں کو پیٹ سے) جدا رکھیں اور عورتوں کو حکم فرماتے تھے کہ خوب سمٹ کر (یعنی رانوں کو پیٹ سے ملا کر) سجدہ کریں۔

عن الحسن وقتادة قالا: إذا سجدت المرأة فإنها تنضم ما استطاعت ولا تتجافى لكي لا ترفع عجيزتها.

(مصنف عبدالرزاق: ۳/ ۴۹، باب تکبیرة المراءة بیدیہا وقیام المراءة ورکوعہا وسجودہا)

ترجمہ:حضرت حسن بصری اور حضرت قتادہ رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ جب عورت سجدہ کرے تو جہاں تک ہوسکے سکڑ جائے اور اپنی کہنیاں پیٹ سے جدا نہ کرے تاکہ اس کی پشت اونچی نہ ہو۔

عَنْ مُجَاهِدٍ أَنَّهُ كَانَ يَكْرَهُ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ بَطْنَهُ عَلَى فَخِذَيْهِ إِذَا سَجَدَ كَمَا تَصْنَعُ الْمَرْأَةُ.

(مصنف ابن ابی شیبہ: رقم الحديث 2704)

ترجمہ: حضرت مجاہد رحمہ ﷲ اس بات کو مکروہ جانتے تھے کہ مرد جب سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو رانوں پر رکھے جیسا کہ عورت رکھتی ہے۔

عن عطاء قال... إذا سجدت فلتضم يديها إليها وتضم بطنها وصدرها إلى فخذيها وتجتمع ما استطاعت.

(مصنف عبدالرزاق:۳ / ۵۰ )

ترجمہ: حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ عورت جب سجدہ کرے تو اپنے بازو اپنے جسم کے ساتھ ملا لے، اپنا پیٹ اور سینہ اپنی رانوں سے ملا لے اور جتنا ہو سکے خوب سمٹ کر سجدہ کرے۔

 (۴) ہیئت قعدہ: مرد جلسہ اور قعدہ میں اپنا داہنا پیر کھڑا کرکے اور بایاں پاؤں بچھاکر کے اس پر بیٹھ جائیں اورعورت اپنے دونوں پاؤں داہنی طرف نکال کر بائیں سرین پر بیٹھے۔

عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍالْخُدْرِیِّ رضی اللہ عنہ صَاحِبِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَنَّہٗ قَالَ... وَکَانَ یَاْمُرُالرِّجَالَ اَنْ یَّفْرِشُوْا الْیُسْریٰ وَیَنْصَبُوْا الْیُمْنٰی فِی التَّشَھُّدِ وَ یَاْمُرُالنِّسَائَ اَنْ یَّتَرَبَّعْنَ.

(السنن الکبری للبیہقی: ۲ / ۲۲۳،باب ما یستحب للمراةالخ)

ترجمہ: صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو حکم فرماتے تھے کہ تشہد میں بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھیں اور دایاں پاؤں کھڑا رکھیں اور عورتوں کو حکم فرماتے تھے کہ چہار زانو بیٹھیں۔

عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، أَنَّهُ سُئِلَ: كَيْفَ كُنَّ النِّسَاءُ يُصَلِّينَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ كُنَّ يَتَرَبَّعْنَ ، ثُمَّ أُمِرْنَ أَنْ يَحْتَفِزْنَ.

(جامع المسانید از محمد بن محمود خوارزمی:۱ / ۴۰۰)

ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سوال کیا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عورتیں نماز کس طرح ادا کرتی تھیں۔انہوں نے فرمایا پہلے توچہار زانوہو بیٹھتی تھیں پھر ان کو حکم دیا گیا کہ دونوں پاؤں ایک طرف نکال کر سرین کے بل بیٹھیں۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہ اَنَّہٗ سُئِلَ عَنْ صَلٰوۃِ الْمَرْاَۃِ فَقَالَ تَجْتَمِعُ وَتَحْتَفِزُ .

(مصنف ابن ابی شیبة: ۱ / ۵۰۵)

ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے عورت کی نماز سے متعلق سوال کیا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: خوب سمٹ کر نماز پڑھے اور بیٹھنے کی حالت میں سرین کے بل بیٹھے۔

فائدہ: چہار زانو بیٹھنے کا حکم شروع شروع میں تھا لیکن بعد میں یہ حکم تبدیل ہو گیا۔ اب حکم ”اِحْتِفَاز“ کا ہے یعنی ”سرین کے بل بیٹھنا“ (بحوالہ المنجد) جیسا مذکورہ دلائل سے واضح ہے۔

حدیث کا  ترجمہ وہی ہے جو آپ نے کیا ہے۔  کسی حدیث سے مسائل نکالنے کے لیے ایک حدیث کو دیکھ  کرمسئلہ نکالنادرست نہیں، بلکہ پورے ذخیرہ احادیث  کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔ جب اس اصول کو سامنے رکھیں گے تو کوئی اشکال نہیں ہوگا۔

عورت اور مرد کے احکام میں بے شمار فرق ہیں، عورت کا ستر الگ ہے مرد کا ستر الگ ہے، اسی طرح ان کے متعلق بعض دُوسرے مسائل میں بھی فرق ہے اور نماز کے بعض  کیفیات میں بھی فرق ہے، اور یہ سب فرق،  قرآن و حدیث سے ہی اخذ کئے گئے ہیں۔

عن وائل بن حجر رضي اللّٰه عنه قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: یا وائل بن حجر إذا صلیت فاجعل یدیک حذاء أذنیک، والمرأة تجعل یدیها حذاء ثدیها. (منتخب کنز العمال علی ہامش مسند أحمد ۳؍۱۷۵، مجمع الزوائد ۲؍۱۰۳، المصنف لابن أبي شیبة ۱؍۲۳۹، طبراني کبیر ۲۲؍۲۰)

وإذا أراد الدخول في الصلاة کبر ورفع یدیه حذاء أذنیه والمرأة أنها ترفع حذاء منکبیها. (البحر الرائق ۱؍۳۰۵، شامي ۲؍۱۸۲ زکریا، طحطاوي علی المراقي ۱۵۲، مجمع الأنہر ۱؍۹۲) عن علي رضي اللّٰه عنه أن من السنة في الصلاة وضع الأکف علی الأکف، وفي لفظ وضع الیمین علی الشمال تحت السرة. (منتخب کنز العمال علی ہامش مسند أحمد ۳؍۱۷۹، بیہقي ۲؍۳۱، مسند أحمد ۱؍۱۱۰، المصنف لابن أبي شیبة ۱؍۹۰-۹۱، إعلاء السنن ۲؍۱۶۸، تحفة الأحوذي ۱؍۲۱۴)

عن وائل بن حجر رضي اللّٰه عنه أنه رأی النبي صلی اللّٰه علیه وسلم وضع یمینه علی شماله، ثم وضعهما علی صدرہ. (بیہقي ۲؍۱۰۷ دار الحدیث القاہر، مراسیل أبي داؤد ۶، إعلاء السنن ۲؍۱۴۸)

بخلاف المرأة فإنها تضع علی صدرها؛ لأنہ أستر لها فیکون في حقها أولیٰ. (إعلاء السنن ۲؍۱۵۳ قدیم)

وأما المرأة فإنها تضعهما تحت ثدیها بالاتفاق لأنه أستر لها. (کبیري ۲۹۴)

ووضع الرجل یمینه علی یسارہ تحت سرته هو المختار، وتضع المرأۃ والخنثی الکف علی الکف تحت ثدیها. (درمختار مع الشامي ۲؍۱۸۷-۱۸۸ زکریا)

عن بن عمر رضي اللّٰه عنه مرفوعاً إذا جلست المرأة في الصلاة وضعت فخذها علی فخذها الأخریٰ فإذا سجدت ألصقت بطنها علی فخذیها کأستر ما یکون لها. (کنز العمال ۸؍۲۲۳، منتخب کنز العمال علی هامش مسند أحمد بن حنبل ۳؍۲۳۴، مصنف ابن أبي شیبة ۱؍۲۷۰، نیل الأوطار قدیم ۲؍۱۵۹)

وأبدی ضبعیه أي وجافی بطنه عن فخذیه ووجه أصابع رجلیه نحو القبلة والمرأة تخفض وتلزق بطنہا بفخذیها؛ لأنه أستر لها فإنها عورة مستورة. (البحر الرائق ۱؍۳۲۰-۳۲۱، کبیري ۳۱۳)

عن عائشة رضي اللّٰه عنها کان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم یفتتح الصلاة بالتکبیر - إلی أن قالت - وکان یفترش رجله الیسری وینصب الیمنی. (صحیح مسلم ۱؍۱۹۵، سنن الترمذي ۱؍۶۵)

عن خالد بن اللجلاج قال: کن النساء یؤمرن أن یتربعن إذا جلس في الصلاة یجلسن جلوس الرجال. (المصنف لابن أبي شیبة ۲؍۵۰۶ المجلس العلمي)

وإذا فرغ من سجدتي الرکعة الثانیة افترش رجله الیسریٰ فجلس علیہا ونصب یمناہ ووجه أصابعه نحو القبلة. (البحر الرائق ۱؍۳۲۳، طحطاوي علی المراقي ۱۵۵)

والمرأۃ علی إلیتہا الیسریٰ في القعدتین وتخرج کلتا رجلیہا من الجانب الأخر أي الأیمن؛ لأن ذٰلک أستر لہا۔ (کبیري ۳۲۳)

  واللہ اعلم بالصواب

      احقرمحمد ابوبکر صدیق  غفراللہ لہ

  دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ

۲؍ذیقعدہ؍۱۴۳۸ھ

                  ۲۶؍جولائی؍۲۰۱۷ء