Question #: 996
February 08, 2015
Answer #: 996
السلام علیکم: حضرت!جلد کی کریم اورشیمپو کے اجزاء میں لکھاہوتاہے کہ ان کوبنانے میں مختلف اقسام میں سے ایک قسم کاالکحل استعمال کیاگیاہے،کیااس کو استعمال کرناجائزہے یانہیں؟ اوربازارمیں جلد کی کوئی دوسری ایسی کریم نہیں ہے جس میں الکحل نہ ہو اور اگر اس کریم کواستعمال نہ کیاجائے توبھی جلدخراب ہونے کامسئلہ ہے،اگراس کواستعمال کرناجائزہے توکیاہم وضوکی حالت میں اس کریموں کواستعمال کرسکتےہیں؟کیااس سے ہماراوضو تونہیں ٹوٹے گا؟ اسی طرح ہم جب غسل کرتے ہیں اوربالوں کوشیمپو لگاتے ہیں اور شیمپو میں الکحل استعمال ہوتاہے توکیاغسل ہوجائے گا یاپھر سے شیمپولگائے بغیر غسل کرناپڑے گا؟برائے مہربانی میری رہنمائی فرمائیے۔جزاک اللہ۔
الجواب باسم ملھم الصواب
جلدی کریم اورشیمپو وغیرہ میں استعمال ہونے والی الکحل عام طور پر کم قیمت اشیاء مثلا آلو ،گنا،بیر،جو اور گندم وغیرہ سے حاصل کی گئی ہوتی ہیں،اس لیے ان کے استعمال کی گنجائش ہےاور ان کے لگانے سے وضواورغسل میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا اوران کولگا کر نماز بھی پڑھ سکتے ہیں، البتہ اگر کسی کریم یاشیمپووغیرہ کے بارے میں غالب گمان ہوکہ اس میں استعمال ہونے والی الکحل انگوریا منقی اور تر یا خشک کھجور سے بنی ہوئی ہے تو وہ نجس ہے، اس کااستعمال کرنا جائزنہیں۔
"واما غیر الاشربۃ الاربعۃ فلیست نجسۃ عند الامام ابی حنیفۃ ،وبھذا یتبین حکم الکحول المسکرۃ التی عمت بھا البلویٰ الیوم ؛فانھا تستعمل فی کثیر من الادویۃ والعطور والمرکبات الاخری،فانھا ان اتخذت من العنب او التمر فلا سبیل الی حلتھا او طھارتھا ،وان اتخذت من غیرھا فالامر فیھا سھل علی مذھب ابی حنیفۃؒ،ولا یحرم استعمالھا للتداوی اوالاغراض مباحۃ اخری مالم تبلغ حد الاسکار؛لانھا انما تستعمل مرکبۃ مع المواد الاخری ولا یحکم بنجاستھا اخذابقول ابی حنیفۃ ؒ۔" (تکملۃ فتح الملھم:3/342)
"وفي المغرب: الطلاء كل ما يطلى به من قطران أو نحوه، ويقال لكل ما خثر من الاشربة: طلاء على التشبيه حتى يسمى به المثلث۔۔۔۔۔ (وهو النئ من ماء الرطب) هذا أحد الاشربة الثلاثة التي تتخذ من التمر، والثاني النبيذ منه، وهو ما طبخ أدنى طبخة، وهو حلال۔" (الشامیۃ:10/37)
الجواب صحیح واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
عبد الوہاب عفی عنہ عبدالرحمان
عبد النصیر عفی عنہ معھدالفقیر الاسلامی جھنگ
معھد الفقیر الاسلامی جھنگ ۱۴۳۶/۴/۲۲ھ