Question #: 2640
July 02, 2020
Answer #: 2640
حضرت السلام عليكم ورحمة الله وبركاته! ميرا ايك بڑا بھائ اور چار بہنیں ہیں۔والد صاحب کا انتقال چھ سال پہلے ہوا ہے۔ جب انہو ں نے وصیت لکھی تو میں گھر میں نہیں تھا۔ اسلئے میری غیر موجودگی میں مجھے تقریباًایک تہائی سے بھی کم زمین ملی۔ باقی دو تہائی سے زیادہ بڑے بھائی نے لی۔ والد صاحب نے وصیت میں بہنوں کا حصہ نہیں رکھا۔ اب مجھے کیا کرنا چا ہیے کیونکہ بڑے بھا ئی صاحب ان کو حصہ دینے پر رضامند نہیں ہیں۔ میرے حساب سے بہنوں کا حصہ بھائی کے پاس ہے۔
الجواب حامدا ومصلیا
آپ کے والد صاحب نے اپنی بیٹیوں کو وراثت سے محروم کرکے بہت بڑا ظلم کیا، گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا ، اپنی آخرت اور قبر کو خراب کیا ہے۔ بیٹیوں کو جائیداد سے محروم رکھنا حرام اور قرآن مجید کے احکام کے واضح خلاف ہے۔ آپ کے والد کی یہ وصیت بالکل بے کار ہے ، اس پر عمل کرنا جائز نہیں ، اسی طرح میراث میں بہنوں کو شرعی حصہ سے محروم رکھنا اور بھائیوں کا سارے مال پر قبضہ کرلینا شدید حرام اور کبیرہ گناہ ہے ۔
کسی وارث کی میراث نہ دینے سے متعلق حدیث پاک میں ہے:
"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من فر من ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة" سنن ابن ماجة، كتاب الوصايا.
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو اپنے وارث کو میراث دینے سے بھاگے ، اللہ قیامت کے دن جنت سے اس کی میراث قطع فرما دے گا۔
لہذا آ پ اپنے بھائی کو سمجھائیں کہ وہ اپنے والد پر رحم کرے اورانکی اور اپنی قبر اور حشر کی مشکلات کو آسان بنائے اور اپنی بہنوں کو وراثت سے ان کا شرعی حق دے۔
آپ بھی اچھی طرح حساب لگالیں کہ آپ کے حصے میں تو بہنوں کا حصہ نہیں ہے؟ اگر ہو تووہ ان کے حوالہ کردیں۔
والله اعلم بالصواب
احقرمحمد ابوبکر صدیق غَفَرَاللّٰہُ لَہٗ
دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ
24 محرّم، 1442ھ
13 ستمبر، 2020ء