29 Mar, 2024 | 19 Ramadan, 1445 AH

Question #: 2075

September 23, 2017

عورت کو لیکوریا کا مسلہ ہو تو اگر نماز کے دوران یہ مسلہ ہو جائے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے ؟ نماز مکمّل کر لینی چاہیے جسکی نیّت باندھ لی ہو یا وہیں روک دینی چاہیے ؟ اگر بار بار ایک ہی نماز کے وقت میں مسلہ ہو جاتا ہو تو بار بار وضو نیا بنانا ہوتا ہے ؟

Answer #: 2075

عورت کو لیکوریا کا مسلہ ہو تو اگر نماز کے دوران یہ مسلہ ہو جائے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے ؟ نماز مکمّل کر لینی چاہیے جسکی نیّت باندھ لی ہو یا وہیں روک دینی چاہیے ؟ اگر بار بار ایک ہی نماز کے وقت میں مسلہ ہو جاتا ہو تو بار بار وضو نیا بنانا ہوتا ہے ۔

الجواب حامدا ومصلیا

لیکوریا کی بیماری کی وجہ سے جو پانی خارج ہوتا  ہے، وہ چونکہ رحم سے آتا ہے، اس لیے نجاست غلیظہ کے حکم میں ہے۔ اس سے کپڑے ناپاک ہوجاتے ہیں۔ اور اس  کے  نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔

اگر یہ پانی ہر وقت بہتا رہتا ہے اور  اس خاتون  کو اتنا وقفہ بھی نہیں ملتا کہ جس میں وضو کرکے  چار رکعت  نماز ادا کرسکے ،تو  وہ  معذور کے حکم میں  ہے۔ اس کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ   ہر نماز کے وقت کےداخل ہونے پر وضو کرلیا کرے اور اس سے جتنی چاہےنمازیں ( فرض ، واجب، سنت ، نفل ، قضا ) پڑھتی  رہے، جب تک نماز کا وقت رہے گا، لیکوریا کے پانی نکلنے کی وجہ سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔  پھر جب نماز کا وقت ختم ہوگا ، وضوخود بخود  ٹوٹ  جائے گا۔  پھر جب دوسری نماز کا وقت آئے گا تو اس کے لیے نیا وضو کرنا ضرور ی  ہوگا۔

اور معذور ہونے کی صورت میں دورانِ نماز جو لیکوریا کا پانی  نکل کر کپڑے یا جسم پر لگ جائے، تو استنجا کرنے اور کپڑوں کو دھونے کے متعلق حکم یہ ہے کہ اگر پانی   اتنی کثرت سے نکل  آتا ہوکہ ایک دفعہ استنجا کرنے اور دھونے کے بعد نماز مکمل کرنے سے پہلےپہلے  دوبارہ نکل  کر پھر کپڑوں پر لگ جاتاہو، تو ایسی صورت میں کپڑوں اور جسم کودھونا واجب نہیں ، انہیں کپڑے کے ساتھ  نماز پڑھنا بھی جائز ہے۔

اگر  اس  کوایک  نماز  کے  پورے   وقت میں  لیکوریا کے پانی  کے نکلنے کے  بعد    اتنا  وقفہ  ملتا  ہو  کہ جس میں وہ وضو کرکے صرف فرض نماز پڑھ سکے ، تو وہ شرعاًمعذور نہیں ہے۔  اور اس صورت میں لیکوریا کے پانی  کے نکلنے سے اس کا وضو ٹوٹ جائے گا۔  لہذا   اس صورت میں باوضو ہوکر پاک کپڑوں میں  نماز پڑھنا  ضروری ہوگا۔

الدر المختار - ( 1 /  305)

( وصاحب عذر من به سلس ) بول لا يمكنه إمساكه ( أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة ) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة ( إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة ) بأن لا يجد في جميع وقتها زمنا يتوضأ ويصلي فيه خاليا عن الحدث ( ولو حكما ) لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم ( وهذا شرط) العذر ( في حق الابتداء وفي ) حق ( البقاء كفي وجوده في جزء من الوقت ) ولو مرة ( وفي ) حق الزوال يشترط ( استيعاب الانقطاع ) تمام الوقت ( حقيقة ) لأنه الانقطاع الكامل ( وحكمه الوضوء ) لا غسل ثوبه ( لكل فرض ) اللام للوقت كما في لدلوك الشمس  ( الإسراء 18 ) ( ثم يصلي ) به ( فيه فرضا ونفلا ) فدخل الواجب بالأولى ( فإذا خرج الوقت بطل ) أي ظهر حدثه السابق حتى لو توضأ على الانقطاع ودام إلى خروجه لم يبطل بالخروج ما لم يطرأ حدث آخر أو يسيل كمسألة مسح خفه  وأفاد أنه لو توضأ بعد الطلوع ولو لعيد أو ضحى لم يبطل إلا بخروج وقت الظهر  ( وإن سال على ثوبه ) فوق الدرهم ( جاز له أن لا يغسله إن كان لو غسله تنجس قبل الفراغ منها ) أي الصلاة ( وإلا ) يتنجس قبل فراغه ( فلا ) يجوز ترك غسله هو المختار للفتوى            

بدائع الصنائع - (ج 1 / ص 129)

وإنما تبقى طهارة صاحب العذر في الوقت إذا لم يحدث حدثا آخر أما إذا أحدث حدثا آخر ، فلا تبقى ، لأن الضرورة في الدم السائل لا في غيره فكان هو في غيره كالصحيح قبل الوضوء ، وكذلك إذا توضأ للحدث أو لا ، ثم سال الدم فعليه الوضوء ، لأن ذلك الوضوء لم يقع لعدم العذر فكان عدما في حقه .وكذا إذا سال الدم من أحد منخريه فتوضأ ، ثم سال من المنخر الآخر فعليه الوضوء ، لأن هذا حدث جديد لم يكن موجودا وقت الطهارة فلم تقع الطهارة له فكان هو ، والبول ، والغائط سواء فأما إذا سال منهما جميعا فتوضأ ، ثم انقطع أحدهما فهو على وضوء ما بقي الوقت لأن طهارته حصلت لهما جميعا .والطهارة متى وقعت لعذر لا يضرها السيلان ما بقي الوقت فبقي هو صاحب عذر بالمنخر الآخر ، وعلى هذا حكم صاحب القروح إذا كان البعض سائلا ثم سال الآخر ، أو كان الكل سائلا فانقطع السيلان عن البعض.

  واللہ اعلم بالصواب

      احقرمحمد ابوبکر صدیق  غفراللہ لہ

  دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ

۲۷؍ذی الحجہ؍۱۴۳۸ھ

                    ۱۹؍ستمبر؍۲۰۱۷ء