Question #: 1940
April 20, 2017
Answer #: 1940
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ہذا کے بارے میں :
1- بہشتی زیور میں لکھا ہے کہ داڑہی کے بال اگر اکھیڑے جائیں تو ان کے سرے ناپاک ہوتے ہیں اب پوچھنا یہ ہے کہ وضو کے بعد جب داڑھی پر کنگھی پھیریں تو کچھ بال ٹوٹ جاتے ہیں اور ان کے سرے سفید ہوتے ہیں تو کیا اب کنگھا ناپاک ہو گیا داڑھی بھی یا نہیں ۔
2- کیا داڑھی کے ٹوٹے بال کہیں بھی پھینکے جا سکتے ہیں یا جیب میں رکھے جا سکتے ہیں مہربانی فرما کر تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
الجواب حامدا ومصلیا
1- اکھیڑے ہوئے بال کا الگ حکم ہے، اور ٹوٹے ہوئے بالوں کا الگ حکم ہے، اکھیڑے ہوئے بالوں کے سرے ناپاک ہوتے ہیں، اور ٹوٹے ہوئے بالوں کے پاک ہوتے ہیں ، اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ اکھیڑے ہوئےبال کے سرے پر چکناہٹ (دسومت) ہوتی ہےاور اور ٹوٹے ہوئے بال کے سرے چکناہٹ (دسومت) سے خالی ہوتے ہیں۔ لہذا صورت مسئولہ میں داڑھی پر کنگھی پھیرنے سے جو بال ٹوٹ جاتے ہیں، وہ ناپاک نہیں ہیں، اگرچہ ان کے سرے سفید ہوں۔ اور نہ ہی ان کی وجہ سے کنگھا وغیرہ ناپاک ہوگا۔
2- کٹے ہوئے بال ہوں یا ناخن ، یا جسم کا کوئی اور حصہ ہو، اس کو دفن کردینا چاہیے، اور اگر دفن نہ کرے ، بلکہ کسی محفوظ جگہ ڈال دے، جہاں پاؤں کے نیچے نہ آئیں، تو یہ بھی جائز ہے۔ مگر نجس اور گندی جگہ نہ ڈالے، کیونکہ یہ انسانی اعضاء کے احترام کے خلاف ہے۔
فی الدر المختار - (1/ 206)
(وشعر الميتة) غير الخنزير على المذهب (وعظمها وعصبها) على المشهور (وحافرها وقرنها) الخالية عن الدسومة وكذا كل ما لا تحله الحياة حتى الإنفحة واللبن على الراجح.
وفی حاشية ابن عابدين - (1/ 206).
قوله الخالية عن الدسومة) قيد للجميع كما في القهستاني، فخرج الشعر المنتوف وما بعده إذا كان فيه دسومة .
فی حاشية ابن عابدين - (6/ 405)
قوله ( يستحب قلم أظافيره ) وقلمها بالأسنان مكروه يورث البرص فإذا قلم أظفاره أو جز شعره ينبغي أن يدفنه فإن رمى به فلا بأس وإن ألقاه في الكنيف أو في المغتسل كره لأنه يورث داء . خانية ويدفن أربعة الظفر والشعر وخرقة الحيض والدم .
وفی الفقه الإسلامي وأدلته (1/ 252)
واختلفوا في أشياء، فقال الحنفية: كل شيء من أجزاء الحيوان غير الخنزير لا يسري فيه الدم من الحي والميت المأكول وغير المأكول حتى الكلب: طاهر، كالشعر، والريش المجزوز، والإنفحة الصلبة ، والمنقار والظلف، والعصب على المشهور، والقرن والحافر، والعظم ما لم يكن به دسم (وَدَك)؛ لأنه نجس من الميتة، فإذا زال عن العظم زال عنه النجس، والعظم في ذاته طاهر، لما أخرج الدار قطني: « إنما حرم رسول الله صلّى الله عليه وسلم من الميتة لحمها، فأما الجلد والشعر والصوف، فلا بأس به» . ويدخل فيه شعر الإنسان غير المنتوف، وعظمه وسنه مطلقاً على المذهب، أما الشعر المنتوف فنجس.
واللہ اعلم بالصواب
احقرمحمد ابوبکر صدیق غفراللہ لہ
دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ
۲۷؍رجب المرجب؍۱۴۳۸ھ
۲۵؍اپریل؍۲۰۱۷ء