Question #: 2806
May 20, 2021
Answer #: 2806
الجواب حامدا ومصلیا
صورت مسئولہ میں دکاندار کا کسٹمر کے اکاؤنٹ میں موجودہ پیسوں کو اس کے اکاؤنٹ سے نکال کر اپنے اکاؤنٹ میں منتقل کرنے، اور کسٹمر سے چارجز فیس خود وصول کرنے میں اگر حکومت یا کمپنی کے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہورہی اور کسٹمر کو اس کے پیسے اتنے ہی ملتے ہیں جتنے پیسے عام طریقے سے نکالنےسے ملتے ہیں، تو پھر دکاندار کے لیے اس طرح معاملہ کرنا جائز ہے ورنہ جائز نہیں ہے۔
فی الشامیۃ:
قال فی التتارخانیة: وفی الدلال والسمسار یجب أجر المثل، وما تواضعوا علیہ أن فی کل عشرة دنانیر کذا فذاک حرام علیہم. وفی الحاوی: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: کے أرجو أنہ لا بأس بہ وإن کان فی الأصل فاسدا لکثرة التعامل وکثیر من ہذا غیر جائز، فجوزوہ لحاجة الناس إلیہ کدخول الحمام .
(رد المحتار: کتاب الإجارة )
و فی فقہ البیوع:
"أن دائرة البرید نتقاضی عمولة من المرسل علی إجراء ہذہ العملیة فالمدفوع إلی البرید أکثر مما یدفعہ البرید إلی المرسل إلیہ فکان فی معنی الربا ولہذالسبب أفتی بعض الفقہاء فی الماضی القریب بعدم جواز إرسال النقود بہذالطریق ولکن أفتی کثیر من العلماء المعاصرین بجوازہاعلی أساس أن العمولة التی یتقاضاہاالبرید عمولة مقابل الأعمال الإداریةمن دفع الاستمارة وتسجیل المبالغ وإرسال الاستمارة أوالبرقیة وغیرہاإلی مکتب البرید فی ید المرسل إلیہ وعلی ہذ الأساس جوز الإمام أشرف علی التہانوی رحمہ اللہ-إرسال المبالغ عن طریق الحوالة البریدیة".
(فقہ البیوع:۲/۷۵۱)
والله اعلم بالصواب
احقرمحمد ابوبکر صدیق غَفَرَاللّٰہُ لَہٗ
دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ